Topics

سندر سنگھ۔ سوات

محترم مرشد کریم

السلام علیکم ورحمتہ اللہ

”میں“ کئی عشرے قبل پیدا ہوا، پروان چڑھا اور ایک دن عمر گزار کر فنا ہوگیا۔ فنا کیا ہے اور میں کون ہوں …… یہ بھی جاننا چاہتا ہوں کہ دور رہ کر مرشد کی قربت کیسے حاصل ہو۔

 

نیازمند

سندر سنگھ۔ سوات

 

بہت پیارے دوست، سندر سنگھ

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ

اللہ کی رحمت آپ کے اوپر چادر بنی رہے…… جسم و روح کا رشتہ آپ کی سمجھ میں آجائے۔ ”میں“ ہر آدمی بولتا ہے مگر ”میں“ کیا ہے کوئی نہیں سوچتا۔”میں“ اگر کوئی ہستی ہے تو فنا کیا چیز ہے۔ بڑے بڑے رشی، منی، گرو آئے…… سب نے ”میں“ کا کھوج لگایا۔ جب انہوں نے کچھ نہ پایا تو فنا کو قبول کرلیا۔

اس دنیا میں، مرنے کے بعد کی دنیا میں، جہاں کہیں دیکھو ”فنا“ کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ یہاں بھی فنا ہے تو وہاں بھی فنا ہے۔ ثابت یہ ہوتا ہے کہ فنا کے اوپر بھی فنا ہے…… فنا خود فانی ہے۔ کوئی کسی سے محبت کرتا ہے، کوئی کسی سے نفرت کرتا ہے۔ اسے یہ پتہ نہیں کہ محبت کیا ہے، نفرت کیا ہے تو پھر محبت، نفرت کا اعتبار کیا ہوا…… ہر شخص فانی چیزوں سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے۔ ہر شخص فانی چیزوں سے نفرت کرتا ہے۔ جب چیز ہی عدم وجود ہے پھر یہ نفرت اور محبت کا اعتبار کیا معنی رکھتا ہے……

”میں“ پیدا ہوتا ہے…… کیسے پیدا ہوتا ہے…… باپ کا نطفہ ماں کے رحم میں جب تک اپنا وجود ختم نہ کرے، ”میں“ نہیں بنتا…… ماں نو مہینے تک اپنے خون کو فنا کرتی رہتی ہے۔ بچہ پیدائش کے بعد ہر سیکنڈ، ہر لمحہ، ہر منٹ، ہر گھنٹہ، ہر دن، ہر ماہ فنا (غیب) ہوتا ہے تو ایک سال کا کہلاتا ہے۔ سند نہیں ہے کہ ایک سال کا ہوگیا ہے۔ یہ بھی علم نہیں لمحات، منٹ، گھنٹے کہاں چلے گئے۔

عزیز فرزند! پیارے دوست…… یہ دنیا بڑی عجیب گورکھ دھندا ہے۔ جس نے دنیا میں خود کو غرق کردیا، پھر اس کا کہیں اتاپتا نہیں چلتا۔

یک مو اگر ٹل جائے پاؤں

پھر کہیں ٹھور نہ ٹھاؤں

مطلب اگر بال برابر قدم ڈگمگاجائے تو ٹھکانے کی نشاندہی نہیں ہوتی۔

آپ نے اپنے من مندر میں جو مورتی سجائی ہے، آپ کہتے ہیں کہ محبوب کی صورت ہے۔ نہیں میرے بھائی! اندر اپنی ہی تصویر ہوتی ہے۔ آدمی تصویر میں، چونکہ تصویر آئینہ بن جاتی ہے، مرشد کی تصویر دیکھتا ہے۔ مرشد کیا ہے…… آدمی کے اندر اپنے آئینہ میں خود اپنی تصویر ہے۔

جو آدمی خود اچھا ہوتا ہے، اسے سب اچھے لگتے ہیں۔ جو آدمی خوداعتماد ہوتا ہے وہ دوسروں پر اعتماد کرتا ہے۔ شکی مزاج آدمی کو آپ نے کسی پر یقین کرتے دیکھا ہے…… دوست، مرید کو چاہئے کہ اپنا آئینہ اتنا صقیل کردے کہ تصویر ہزاروں میل کے فاصلہ پر بھی ہو تو عکس قبول کرے۔

دعا ہے اللہ آپ کو خوش رکھیں، سکون دیں …… ذہنی پراگندگی دھل جائے۔ یہاں، وہاں اور وہاں سے اس پار…… سوائے اللہ کے نور کے کچھ نہیں۔

اول اللہ نور اُپایا

قدرت کے سب بندے

اک نور تے سب جب اپجیا

کون بھلے کون مندے

(حضرت بابا گرونانک صاحب)

سب دوستوں کو سلام۔

 

دعاگو

عظیمی

۱۸، اپریل ۱۹۹۴ء

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔