Topics
السلام علیکم ورحمۃ
اللہ
درخواست ہے کہ جس قدر ممکن ہو اور شعور کے دائرہ کار میں آجائے تحریر فرمائیں کہ عالم اعراف کیا ہے۔
عالم اعراف کےبارے
میں اللہ کا ارشاد ہے
خربی ہے کم تولنے والوں
کے لیے جن کا یہ حال ہے کہ جب لوگوں سےناپ لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں اور جب ان کو ناپ یا تول کردیتے ہیں توگھٹا کر دیتے ہیں ۔ کیا یہ
لوگ نہیں سمجھتے کہ ایک بڑے دن اٹھا کر لائے جانے والے ہیں ۔ اس دن جب سب لوگ اللہ
کے رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ ہرگز نہیں ، یقیناً بد کاروں کا نامہ اعمال
قید خانہ (سجین ) میں ہے اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ قید خانہ کا دفتر سجین کیا
ہے۔۔۔ایک کتاب ہے لکھی ہوئی۔
تباہی ہے اس روز
جھٹلانے والوں کے لئے، ان لوگوں کےلئے جو روز جزا کو جھٹلاتے ہیں اور روز جزا کو
وہی لوگ جھٹلاتے ہیں جو حد سے تجاوز کرنےوالے بد عمل ہیں ۔ انہیں جب ہماری آیات
سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ تو اگلے وقتوں کی کہانیاں ہیں۔اپنے گھر وں کی
طرف پلٹتے تو مزنے لیتے ہوئے پلٹتے تھے اور جب دیکھتے تو کہتے تھے یہ بہکے ہوئے
لوگ ہیں حالانکہ وہ ان پر نگراں بنا کر نہیں بھیجے گئے۔ آج ایمان لانے والے کفار
پر ہنس رہے ہیں۔ مسندوں پر بیٹھے ہوئے ان کا حال دیکھ رہے ہیں۔ اب بدلہ پایا
منکروں نے جیسا کرتے تھے۔المطففین: ۱-۳۶
قرآن کریم کی مندرجہ
بالا آیات مرنے کے بعد زندگی کا نقشہ پیش کرتی ہیں ۔ روحانی نگاہ دیکھتی ہے کہ
آدمی کے کندھوں پر دو فرشتے موجود ہیں اور کچھ لکھ رہے ہیں لیکن لکھنے کی طرز یہ
نہیں ہے جو ہماری دنیا میں رائج ہے۔ نہ ان کے ہاتھوں میں قلم ہے اور نہ سامنے کسی
قسم کا کاغذ ہے۔ فرشتوں کا ذہن کوئی بات نوٹ کرتا ہےا ور وہ بات فلم کی طرح ایک
جھلی پر نقش ہوجاتی ہے۔
ان روحانی حقائق کی
روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسان اس دنیا میں جو عمل کرتا ہے اور عمل کے
پس پردہ جو جو سوچ کام کررہی ہے۔ وہ فلم کی صورت میں ریکارڈ ہوجاتی ہے، جسے قرآن
کریم نے کتاب المرقوم کہا ہے۔ مرنے کے بعد انسان یہ فلم (کتاب المرقوم ) دیکھتا
رہتا ہے۔ برے آدمی کے سامنے اس کے برے ارادوں، برے اعمال او ربرے اعمال پر ضمیر کی
ملامت ظلم کی صورت میں ڈسپلے ہوتی ہے تو اسے دیکھ کر شدید اذیت سے دو چار ہو
جاتاہے۔ یہ اذیت پچھتا وا بن کر اس پر مسلط رہتی ہے۔ نیک انسان مرنے کے بعد جب
اپنے نیک ارادوں ، نیک اعمال اور اعمال کے نتیجہ می ضمیر پر طاری ہونے والی سکون
کی کیفیت کو دیکھتا ہے تو وہ اللہ کر رحمت اور قربت کو شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے۔
ہر آدمی فلم دیکھتا
ہے اور مناظر کی نوعیت سے وہ فلم دیکھ کر کبھی قہقہے لگاتا ہےاور کبھی ہنسی سے لوٹ
پوٹ ہوجاتا ہے۔ کبھی آنسوؤں سے رونا شروع کردیتا ہے حالاں کہ وہ جانتا ہے کہ جو
فلم میں دیکھ رہا ہوں وہ کسی کی لکھی ہوئی کہانی ہے۔ اعراف(مرنے کے بعد قبر کی
زندگی) میں جب آدمی یہ دیکھتا ہے کہ میں چوری کررہا ہوں اور میرا ہاتھ کاٹ دیا گیا
ہے تو اس منظر کو دیکھ کر وہ بد حواس ہو کر رونے چیخنے لگتا ہے۔ چوں کہ فلم پوری
زندگی کی ہے اس لئے جب دوسرے اعمال کی فلم دیکھتا ہے توہاتھ کٹنے کی اذیت بھول
جاتا ہے اور پھر جب چوری کی فلم کے مناظر سامنے آتے ہیں تو آدمی رونےلگتا ہے اور
یہ صورت یوم حساب قائم ہونے تک رہے گی۔
یوم انصاف کے بعد جنت
دوزخ کے مراحل ہں ۔ اللہ رحیم وکریم ہیں۔ حضو علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشاد ہے
ایک دن دوزخ کی آگ
ٹھنڈی ہو جائےگی۔
دعاگو عظیمی
جنوری ۱۹۹۰
مرکزی مراقبہ ہال، کراچی
KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI
۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی خط کو جواب دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔