Topics

ایوب کمال (کینیڈا)

عزیزی برخوردار ایوب کمال

          و علیکم السلام ورحمتہ اللہ

          زندگی  تقاضوں کے دوش پر سفر کررہی ہے۔ہمارے اندر تقاضے پیدا ہوتے ہیں اور ہم ان کی تکمیل کرتے ہیں۔ہمیں بھوک لگتی ہے تو ہم بھوک رفع کرنے کے لئے غذا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ پیاس لگتی ہے تو فوراََ ہمارا رجحان پانی کی طرف ہوجاتا ہے ۔ہم کھانا کھا لیتے ہیں، پانی پی لیتے ہیں یعنی تقاضوں کی تکمیل کر لیتے ہیں۔ اس طرح ہمیں تسکین مل جاتی ہے اور ہم مطمئن ہو جاتے ہیں۔

          اگر ہم کسی تقاضے کو نظر انداز کرتے ہیں تو ہمارا ذہن اس میں الجھ کر رہ جاتا ہے اور ہمیں بار بار اس کی عدم تکمیل کی طرف متوجہ کرتا  رہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم بے چینی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اضطراب و پریشانی ہمارے اندر دور کرنے لگتی ہے۔ ہم کوئی بھی کام ارتکاز توجہ سے نہیں کر سکتے، بار بار ہمارے توجہ بھٹک جاتی ہے۔

          تمام تقاضوں کا یہی حال ہے اور کھانا پینا ،خوش ہونا ، محبت کرنا ، معاش کا کام کرنا، اولاد کی تعلیم و تربیت کرنا، ایثار و محبت ، دوسروں کے کام آنا الغرض زندگی کی ہر عمل کسی نا کسی تقاضے کا نتیجہ ہوتا ہے۔یہ تقاضے دینا کے ہر آدمی میں پیدا ہوتے ہیں اور دنیا کا ہر آدمی کسی نا کسی طرح ، کبھی نا کبھی ، جلد یا بدیر ان تقاضوں کی تکمیل کر کے اطمینان حاصل کرتا ہے۔جسم کے تقاضوں کی طرح انسان کی روح میں بھی تقاضے ہوتے ہیں۔ روح کے تقاضے بھی انسانی شعور کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ ان تقاضوں کی تکمیل ہونی چاہئے۔

          روحانی تقاضے اور ان کی تکمیل جسمانی تقاضوں سے زیادہ اہم اور نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ان کے نتائج جسمانی تقاضوں کے مقابلے میں زیادہ مسلسل اور عظیم الشان ہوتے ہیں اور ان کی تکمیل کے نتیجے میں انسان کو بہت زیادہ سکون ، بہت زیادہ طمانیت کا احساس ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ ہر فکر کو بھول جاتاہے۔ سرشاری اور کیف اس کے ذہن کا احاطہ کر لیتا ہے۔ چاروں طرف سے خوشی اور خوشی کے لوازمات اسے حصار میں لے لیتے ہیں اور کسی غم یا کسی پریشانی کو اس کے پاس بھی پھٹکنے نہیں دیتے۔ ان روحانی تقاضوں میں سب سے اہم اور سب سے زیادہ بنیادی تقاضا  جو ہر انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے وہ انسان کو احساس دلاتا ہے کہ اسے اپنے اللہ سے رابطہ پیدا کرنا چاہئے اور اسے ان خوشیوں اور مسرتوں سے بہرہ مند ہونا چاہئے جو کہ اس رابطہ ، اس قربت کا لازمی نتیجہ ہیں۔ انسان کی روح اس خوشی اور مسرت کے لئے بے قرارہے۔

          افسوس کی بات یہ ہے کہ انسان اس ذہن کو پس پشت ڈال چکا ہے جو اسے ایسے تقاضوں اور ان کی تکمیل کی اہمیت سے آگاہ کرتا ہے۔ انسان نے چند روز ہ مادی زندگی کے عارضی تقاضوں کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے۔جسم فانی ہے اور جسمانی خوشیاں اور غم بھی عارضی ہیں۔یہ سب جسم کی موت کے ساتھ ہی فنا ہو جائیں گے۔

                   روح لافانی ہے اس لئے ہر وہ چیز جو روح سے متعلق ہے اپنے اندر لافانیت کا پہلو رکھتی ہے۔

          روحانی تقاضوں کی تکمیل کے نتیجے میں جو روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے وہ ہمیشہ کی مسرت و آرام کی ضامن ہوتی ہے لیکن المیہ یہ ہے انسان ان سب باتوں کی اہمیت کو فراموش کر چکا ہے، وہ اپنی روح سے دور ہو چکا ہے اور روحانی تقاضوں کی تکمیل کی طرف سے لا پرواہ ہو گیا ہے لیکن اس کی روح اسے اب بھی ان تقاضوں کی تکمیل کی طرف متوجہ کرتی رہتی ہے۔ انسان اسے خواہ کچھ بھی معانی پہنائے اسے کسی بھی مفہوم میں قبول کرے اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔روح کے بار بار خبر دار کرنے پر بھی جب ہم اس کی تکمیل نہیں کرتے تو تقاضے کا ردعمل ظاہر ہوتا ہے یہ وہی ردعمل ہے جو جسمانی تقاضوں کی عدم  تکمیل سے بھی پیدا ہوتا ہے۔

          اس ردعمل  کی کیفیت مذکورہ اولیٰ کیفیت سے بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔کبھی اس کیفیت کو انسان ذہنی انتشار کی صورت میں محسوس کرتا ہے ، کبھی بے اطمینانی اور عدم سکون سے تعبیر کرتا ہے۔ کبھی عدم تحفظ کے احساس کی حیثیت دے دیتا ہے لیکن یہ سب ایک روحانی تقاضے کی عدم تکمیل کے  Side Effects  ہیں اور تقاضا یہ  ہے کہ انسان کی روح چاہتی ہے کہ

                    ۔ انسان اللہ سے قربت حاصل کرے اور

                   ۔اس طرح اپنے اصل مقام پر جسے وہ ماضی میں رد کر چکا ہے فائز ہوجائے اور

                   ۔ پریشانی اور غم سے محفوظ و مامون ہو جائے

          لہٰذا لازم ہے کہ ہم روح کے اس تقاضے کی تکمیل کے لئے عملی اقدام کریں۔

                   روحانی تقاضوں کی تکمیل کے لئے اولیاء اللہ نے جو اسباق ترتیب دئیے ہیں اس میں مراقبہ کو بہت اہمیت حاصل ہے۔

                                                                                     

  دعا گوعظیمی 

۳۱ ، مارچ   ۱۹۸۶ئ  

  ، ناظم آباد ۔ کراچی 1-D-1/7

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔