Topics

حسن سید (اسلام آباد)

محترم عظیمی صاحب

          السلام علیکم

          روحانیت کیا ہے؟۔۔ میں نہیں جانتا۔۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلی کسی تحریر کا مطالعہ کیا تو وہ ”ماہنامہ قلندر شعور“ میں ”آج کی بات“ ہے۔ پڑھ کر بے حد متاثر ہوا اور یہ ادراک ہوا کہ تحریر میں گہرائی  بہت ہے۔ راز در راز مخفی ہیں اور میں بہت تھوڑا سمجھ پایا ۔ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اپ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ آدمی تعفن ہے اور زندگی کا اختتام بھی تعفن پر ہوتا ہے۔ کیا یہ بات سخت نہیں۔

          بہت شکریہ

      حسن سید (اسلام آباد) 

         

وعلیکم السلام

          میری آپ سے ابھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن تحریر ہر آدمی کا آئینہ ہے۔ تحریر جب لکھی جاتی ہے تو اس کا تعلق ظاہری حواس سے کم اور اندرونی حواس سے زیادہ ہوتا ہے اس لئے پوری زندگی یا حیات و ممات ، مرنا جینا سب خیالات کے تابع ہے۔ خیالات دماغ کے تابع ہیں۔ جب تک کوئی خیال دماغ میں نہیں آتا زندگی کاکوئی ایک عمل بھی آدمی نہیں کر سکتا۔یہ ایسا راز ہے جس پر اگر نیوٹرل ذہن سے غور کیا جائے تو بات سمجھنا بہت آسان عمل بن جاتا ہے۔

                             زندگی کو اگر مختصر ترین الفاظ میں بیان کیا جائے تو دو زاویوں سے

                             بیان کیا جا سکتا ہے۔ یعنی زندگی کے دو رخ ہیں۔

                                      حیات اور موت ۔۔۔۔۔۔موت اور حیات

          بات اسپرم سے شروع کرتے ہیں۔اسپرم کیا ہے؟ خون کے لاکھوں ذرات غائب ہو جاتے ہیں تو اسپرم وجود میں اتے ہیں۔

          پہلے دن سے حمل میں تغیر واقع نہ ہو تو تصویر کی تکمیل نہیں ہوئی۔ اس تحریر کامفہوم یہ ہے کہ یہاں ہر شے پردہ میں چھپ رہی ہے اور ظاہر ہورہی ہے۔ جو شے ظاہر ہو رہی ہے وہ پردہ میں چھپ رہی ہے اور پردہ میں چھپنے کے بعد پھر ظاہر ہو رہی ہے۔ یہ سلسلہ نو مہینے تک مسلسل جاری رہتا ہے۔ نو مہینے کے بعد چھپے ہوئے خون کے قطرے خوب صورت تصویر بن کر ظاہر ہو جاتے ہیں۔

          ظاہر ہونے کے بعد ہر دن چھپ رہا ہے، ہر مہینہ چھپ رہا ہے اور ہر سال چھپ رہا ہے۔ ایک سال جب پردہ میں چلا جاتا ہے اس طرح کہ نظر نہ آئے تو بچہ کا پہلا سال ختم ہو کر دوسرا شروع ہو جاتا ہے۔

          قابلِ احترام بھائی۔۔۔۔ بھائی اس رشتہ سے کہ میں فقیر بندہ بھی تقریباً چالیس سال صحافت سے وابستہ رہا ہوں۔

          نہایت عزیز دوست۔۔۔ زندگی پر غور کیجیئے۔۔۔زندگی کیا ہے؟

          زندگی نام ہے مرمر کے جئے جانے کا۔۔۔ مرنا چھپنا، جینا،ظاہر ہونا پھر چھپنا یعنی مرنا اور ظاہر ہونا یعنی زندہ ہونا۔۔۔۔Equation  یہ بنی کہ زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا۔

          سوال یہ ہے کہ زندگی کیا ہے؟۔۔۔۔ زندگی دراصل اعمال کی دستاویز ہے۔

                   قانون یہ ہے کہ کوئی عمل کبھی ایک رخ پر نہیں ہوتا۔

          آسمانی کتابوں اور آخری کتاب قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق زندگی غیب و شہود کے علاوہ کچھ نہیں۔

          زندگی تین رخوں پر قائم ہے۔

                   غیب

                    غیب سے ظاہر ہونا

                   ظاہر سے غیب میں چھپنا

          مطلب یہ ہے کہ آدمی غیب تھا، ظاہر ہوا۔۔۔۔۔ اور پھر غائب ہو گیا۔۔ پیدائش سے پہلے وہ جہاں بھی تھا۔ پیدائش کے بعد دنیا میں ظاہر ہوا۔ زندگی کے وقفے پورے ہونے کے بعد وہ پھر غائب ہو گیا۔۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی تین رخوں سے مرکب ہے۔

                   دو غیب اور ایک حاضر

                   ایک حاضر اور دو غیب

          میرے دوست! حقیقت ہمیشہ کڑوی ہوتی ہے لیکن کڑوے پانی کو میٹھا بھی بنایا جا سکتا ہے۔ چونکہ آدمی دو رخوں سے مرکب ہے ان دو رخوں میں سے ایک کا نام نیکی، پاکیزگی،اطاعت، فرمانبرداری،صبر،شکر،قناعت و سخاوت رکھتے ہیں اور دوسرے رخ کا نام شقاوت، گناہ،جرم، دوسروں کا ایذا پہنچانا اور خود غرضی ہے۔

          جہاں خود غرضی اور شقاوت، بدبختی، حق تلفی، ایذا رسانی، ظلم، احسان فراموشی ہے یہ زندگی کا وہ رخ ہے جس کو ہم برائی یعنی تعفن کہتے ہیں۔ دوسرا تعفن پر پردہ ڈالنا ہے۔۔۔دبیز پردہ کہ تعفن  باہر نہ آئے۔ اس رخ کو سعادت ، نیکی ، خوش بختی ، ایثار، سخاوت ، ہم دردی اور اللہ کے احکام کی تعمیل کہتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ آدمی تعفن، سڑاند ، کیچڑ سے بنی تصویر ہے۔ اس تصویر کو اگر دھو لیا جائے، صاف ستھرا کر کے روشنیوں اور خوشبو سے معطر کر لیا جائے تو یہ آدمی کا وہ رخ ہے جسے آسمانی کتابوں کے مطابق انسان کہتے ہیں۔

          خلاصہ یہ ہوا کہ آدمی اور انسان دو الگ الگ یونٹ ہیں اور ان دو یونٹس کو سمجھنے کے لئے خالق کائنات نے اختیار عطا فرمایا ہے۔

          جب آدمی اللہ کے دیئےہوئے اختیارات کو جان لیتا ہے تو اس بات کا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ دونوں رخوں میں سے کسی ایک رخ کا انتخاب کر سکتا ہے۔ آدمی تعفن، سرانڈ اور انسان اللہ کا نور ہے۔

          آپ کو اور میرے تمام صحافی دوستوں کو آداب و سلام

                                                                                      دعاگو

                                                                                      عظیمی

                                                                                      ۲۱ دسمبر  ۲۰۱۵ ء

                                                                                      ماہنامہ قلندر شعور، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔