Topics
محترم عظیمی صاحب
السلام
علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اللہ
آپ کے اوپر اپنی رحمتوں کی بارش برسائیں۔ آمین
کتاب
”مراقبہ“ میں بتایا گیا ہے کہ مادی جسم میں اکثر اعمال کو ہمارا شعور محسوس نہیں کرتا
اور قبول نہیں کرتا۔
سوال
یہ ہے کہ اعمال کہاں سے کنٹرول ہوتے ہیں …… اس بات کی وضاحت بھی فرمادیں کہ روشنی کی
رفتار سے سفر کرنے سے کیا مراد ہے۔
وعلیکم السلام
تمام تجربات، مشاہدات اور محسوسات کا سورس ذہن ہے۔ خیالات ذہن
میں مسلسل وارد ہوتے ہیں۔ کوئی لمحہ نہیں گزرتا جب ذہن میں خیال نہ آئے۔ بھوک پیاس
کا تقاضہ، سونے جاگنے کا عمل، خوشی غمی اور دیگر جذبات، اولاد کی خواہش، پریشان حالی،
وسوسے، جسمانی امراض اور نفسیاتی عوارض سب کے سب خیالات کے تابع ہیں۔ الہامی کتابیں
اور آخری الہامی کتاب قرآن کریم رہنمائی کرتی ہے کہ ایک منبع ہے جہاں سے خیالات (انفارمیشن)
وارد ہوتے ہیں۔ اسی سورس سے لاشمار اطلاعات (خیالات) ہر لمحہ، ہر آن نشر ہوتی رہتی
ہیں۔ مثال آئینہ ہے، روشنی آئینہ کی سطح سے ٹکرا کر منعکس ہوتی ہے لیکن اگر روشنی کی
شعاعوں کے سامنے ٹرانسپیرنٹ شیشہ رکھ دیا جائے تو روشنی اس میں سے چھن جاتی ہے……انعکاس
کا عمل واقع نہیں ہوتا۔ شعور اپنے علم اور دلچسپی کی بدولت مخصوص روشنیوں کو جذب کرتا
ہے۔
جن روشنیوں کو شعور جذب کرتا ہے وہ شعور کے پردہ پر رک جاتی
ہیں، آدمی انہیں دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔
جو روشنیاں شعور کے پردے میں سے گزر جاتی ہیں آدمی……لاعلم رہتا ہے۔ شعوری میکانزم کے
پس پردہ ایک اور ایجنسی ہے۔ شعور اسی ایجنسی کے زیراثر کام کرتا ہے۔ زندگی ہر دور میں
اس ایجنسی سے وابستہ رہی ہے لیکن آدمی اس پر غور نہیں کرتا۔ اس لئے غور نہیں کرتا کہ زندگی ایک معمول کے تحت گزر رہی ہے۔ جذبات، خیالات
اور تقاضوں کے زیراثر ذہن ایک حالت سے دوسری حالت اور ایک کیفیت سے دوسری کیفیت میں
منتقل ہوتا رہتا ہے۔ خیالات کی یلغار سے آدمی کو ان مقامات کا ادراک نہیں ہوتا جو اس
کی اصل ہیں۔ روزمرہ کے معمولات ظاہر کرتے ہیں کہ بامعنی زندگی گزارنے کے لئے جن اجزاء
کی ضرورت ہے وہ ہمارے اندر ہیں۔ مادی زندگی میں بے شمار صلاحیتیں کام کرتی ہیں لیکن
آدمی صرف پانچ حواس سے واقف ہے۔
۱۔ بصارت (دیکھنا)
۲۔ سماعت (سننا)
۳۔ گفتار (بولنا)
۴۔ شامہ (سونگھنا) اور
۵۔ لمس (چھونا)
یکسوئی کے ساتھ انفارمیشن کے منبع کی طرف متوجہ ہونے سے ایسی
اطلاعات اور صلاحیتوں کا مشاہدہ ہوتا ہے جو عام طور پر حواس کی گرفت میں نہیں آتیں۔
بہت سے تجربات اور واقعات، مادی حواس کے علاوہ آدمی کے اندر موجود ایسے ادراک کا پتہ
دیتے ہیں جن کو ماورائے ادراک حواس، چھٹی حس، وجدان، ضمیر، اندرونی آواز، روحانی پرواز
وغیرہ کا نام دیا جاتا ہے۔
علم روحانیت کے مطابق غیب میں لامتناہی روشنیاں ہیں۔ ان ہی روشنیوں
میں کہکشانی نظام، سماوی مخلوق، خلاء میں آبادیاں اور روحانی علوم و اسرار شامل ہیں۔
جب آدمی اپنے اندر متوجہ ہوتا ہے تو شعوری آئینہ پر باطنی اطلاعات کی تصویریں بنتی
ہیں اور نقوش واضح ہوجاتے ہیں۔ آدمی توجہ اور دلچسپی کے ساتھ کسی ایک نقطہ پر غور کرتا
ہے تو غور و فکر اسے شعور کے پس پردہ لاشعور میں دھکیل دیتا ہے……شعوری میکانزم کے پس
پردہ ایجنسی (لاشعور) سے وہ کسی حد تک واقف ہوجاتا ہے۔
ہم جو کچھ دیکھتے یا محسوس کرتے ہیں وہ ایسی شاہراہ پر سفر کررہا
ہے جو بظاہر آنکھوں سے اوجھل ہے لیکن شاہراہ کی موجودگی کے بغیر کوئی حرکت نہیں ہوتی۔
موجودات ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ آنے والے لمحہ کی تعمیر لمحات پر قائم ہے۔ حافظہ ہمیں
کشش ثقل کا پابند رکھتا ہے۔ ہم وقت اور فاصلے کی پابندیوں میں صرف لمحہ حاضر کا مشاہدہ
کرتے ہیں۔ جن لمحات کا نام ماضی یا مستقبل رکھا جاتا ہے وہ شعور کی اسکرین پر جلوہ
گر نہیں ہوتے۔ کائنات اور کائنات کے تمام اجزاء اور ان کے نقوش ایک ریکارڈ یا فلم کی
شکل میں موجود ہیں۔ ہماری مادی نگاہ اس ریکارڈ کا احاطہ نہیں کرسکتی لیکن ان نقوش کی
موجودگی سے انکار ممکن نہیں۔ رویا کی صلاحت انسان کو مادی سطح سے ماوراء علوم کی اطلاع
فراہم کرتی ہے۔ یہ صلاحیت جب برسرعمل ہوتی ہے…… دوری اور نزدیکی بے معنی ہوجاتی ہے۔
انسان کے اندرجو صلاحیتیں کام کرتی ہیں وہ تین دائروں میں مظہر بنتی ہیں۔ اس کو اس
طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ آدمی کے تین جسم ہیں۔ مادی جسم، روشنی کا بنا ہوا جسم اور
نور سے بنا ہوا جسم۔ یہ تینوں بیک وقت متحرک رہتے ہیں لیکن مادی جسم (شعور) صرف مادی
حرکات کا علم رکھتا ہے، مادی جسم روشنی اور نور کے جسم کی تحریکات سے ناواقف ہے۔
روشنی کے جسم کی رفتار مادی جسم سے ستر ہزار گنا زیادہ ہے……
نور کا جسم روشنی کے جسم سے ہزاروں گنا تیز سفر کرتا ہے۔ روحانی استاد کی زیرنگرانی
سالک کی ذہنی استعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا ہے اور سالک کا شعور اس قابل ہوجاتا ہے
کہ روشنی کی رفتار سے متحرک جسم کی تحریکات ادراک میں آجاتی ہیں۔
یہ بات واضح کردینا ضروری ہے کہ یہاں روشنی سے مراد وہ روشنی
نہیں ہے جو ہمیں نظر آتی ہے بلکہ یہ اس روشنی کا تذکرہ ہے جو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں
آتی۔ اس طرح جب شعوری کیفیات نورانی دنیا میں جذب ہوتی ہیں تو سالک نور کے جسم اور
اس کی تحریکات سے واقف ہوجاتا ہے۔
دعاگو
خواجہ شمس الدین عظیمی
فروری، ۱۹۹۷ء
مرکزی مراقبہ ہال، کراچی
KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI
۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی خط کو جواب دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔