Topics
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ
خواب
میں مری ہوئی ٹیچر کا میک اپ کرنا اور ان کے لئے ایک کفن کرنا دو باتوں کی طرف
اشارہ ہے۔ ایک یہ کہ آپس میں سہیلیاں ایسی گفتگو کرتی ہیں جو ماورائی دنیا اور
ماورائی مخلوق سے متعلق ہیں۔ دوسرے یہ کہ صاحب خواب کے کھانے پینے کے اوقات میں بے
اعتدالی ہے جس سے پیٹ میں نقائص پیدا ہو سکتے ہیں، ممکن ہے کہ پیٹ میں کیڑے بھی
ہوں۔
خواب
دراصل ایک مخفی زبان ہے یہ زبان تعبیر بتانے والے کے ذہن کو جو مفہوم دیتی ہے وہ
ظاہر کردیا جاتا ہے ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دور پرے کی باتیں بالکل سامنے نظر
آجاتی ہیں اور تعبیر بتانے والا شخص ان چیزوں کو اندر کی آنکھ سے دیکھ کر یہ بتا
دیتا ہے کہ ایسا ویسا ہے۔ کبھی کبھی اندر کی آنکھ دیکھنے میں صحیح اندازہ نہیں کر
سکتی لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ جو کچھ آنکھ دیکھ رہی ہے وہ غلط ہے۔ زمان و مکان میں
مغالطہ ہو جاتا ہے یعنی جو چیز یا جو بات چھ مہینہ بعد یا سال بھر بعد ہونے والی
ہے اس کے بارے میں یہ تاثر قائم ہو جاتا ہے کہ یہ بات ہوگئی ہے جبکہ وہ کچھ عرصہ
کے بعد واقع ہونے والی ہے۔
خواب
کی تعبیر کا علم ’’ علم لدنی ‘‘ کا ایک باب ہے جو
سیدنا حضور علیہ الصلوٰ والسلام کی خصوصی رحمت سے کسی کو نصیب ہوتا ہے۔
سیدنا
حضور علیہ الصلوٰ والسلام کا ارشاد ہے کہ خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے
لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ تعبیر بتانے والا بندہ پیغمبر یا نبی ہو۔جس
پر رحمت اللعالمین کے فیض و کرم سے فضل ہو جائے وہ اللہ کا انعام ہے۔
خواب
دراصل ہر انسان کا ایک انفرادی عمل ہے ایک آدمی سانپ دیکھتا ہے اس کی تعبیر یہ ہو
سکتی ہے کہ اس نے دشمن کو دیکھا ہے۔ دوسرا آدمی سانپ کو دیکھتا ہے تو اس کی تعبیر
یہ ہو سکتی ہے کہ کوئی شدید بیماری لاحق ہونے والی ہے اور جب تیسرا آدمی اسی سانپ
کو خواب میں دیکھتا ہے تو اس کی تعبیر یہ نکلتی ہے کہ اس کو کہیں سے مال و دولت کا
خزانہ مل جائے۔ خواب کے بارے میں کسی ایک علامت کو تعبیر کے لئے سند قرار نہیں دیا
جا سکتا۔
صاحب
خواب جب خواب سناتا ہے یا کاغذ پر تحریر کرتا ہے اور خواب کی تعبیر جاننے والا
بندہ ان نقوش کے اوپر جب غور کرتا ہے تو اس کی اندر کی آنکھ کے سامنے ایک پردہ (Screen) ظاہر ہوتا ہے اور جیسے
جیسے خواب بیان ہوتا ہے یا تعبیر دینے والا بندہ خواب کے الفاظ پڑھتا ہے، ٹی۔وی کی
طرح اسکرین پر یہ الفاظ نشر ہوتے رہتے ہیں اور جب پورا خواب اسکرین پر لکھا جاتا
ہے تو نیچے اس خواب کی تعبیر الفاظ میں ڈھل کر فلم بن جاتی ہے۔ بالکل اس طرح جیسے
ٹی۔ وی اسکرین پر کوئی عبارت اوپر لکھ دی
جائے اور نیچے اس کا ترجمہ یا مفہوم لکھ دیا جائے۔ تعبیر دینے والے کا ذہن جتنا
یکسو اور مجلّہ ہوتا ہے اسی مناسبت سے ذہن تیز اور بہت تیز کام کرتا ہے۔
دعا
گو
خواجہ
شمس الدین عظیمی مئی ۱۹۸۴ء
1-D-1/7 ، ناظم آباد ۔ کراچی
KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI
۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی خط کو جواب دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔