Topics
شفیق باباجی
السلام علیکم
اہل روحانیت اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ
انسان اپنی ذات کے خول میں بند ہے اور جب تک وہ اپنی انا کے خول سے باہر نہیں نکلے
گا اللہ کا عرفان حاصل نہیں کرسکتا۔ سوال یہ ہے کہ اللہ کا عرفان حال کرنے کے لئے کن
طرزوں کو اپنایا جائے کہ ذاتی انا کا خول شکست ریخت سے دوچار ہوجائے اور بندہ اپنے
اللہ کا عرفان حاصل کرے۔
عزیزہ برخورداری رومانہ
عزیز
وعلیکم السلام ورحمتہ
اللہ
جب ہم کائنات اور کائنات
میں موجود نوعوں کے افراد کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمیں اس تذکرے کو مکمل کرنے کے لئے
تین مقامات سے گزرنا پڑتا ہے اور یہ تین مقامات ہی دراصل کائنات کی تخلیق کا وہ عمل
ہیں جس عمل پر کائنات موجود ہے اور کائنات میں زندگی کے آثار و حوال پائے جاتے ہیں۔
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ انسان جب انفرادی دائرے میں رہ کر سمجھنا
چاہتا ہے تو اس کی سوچ محدود ہوجاتی ہے، اس کے اندر اخلاص نہیں ہوتا۔ کسی فرد کے اندر
اخلاص کے معانی یہ ہیں کہ وہ انفرادی سوچ سے بالاتر ہو کر نوعی سوچ کو اپنالے۔ جب کوئی
بندہ انفرادی طور پر آزاد ہو کر نوعی سوچ کو اپنالیتا ہے تو اس کے اندر اخلاص کا چشمہ
ابل پڑتا ہے۔ اس کی فہم و فراست انفرادیت سے نکل کر اجتماعی بن جاتی ہے۔ پھر یہی فرد
جب اپنی نوع سے نکل کر کائنات کے اندر تمام نوعوں کے بارے میں تفکر کرتا ہے تو اخلاص
کا یہ چشمہ آبشار کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور پوری نوعوں پر محیط ہوجاتا ہے۔
اس صورت میں انسان کی
فہم و فراست نوعی درجہ بندیوں سے گزر کر کائناتی بن جاتی ہے۔ جب کسی انسان کے اندر
اس کی سوچ کائنات کو احاطہ کرلیتی ہے تو کائنات سے اس کا رشتہ مستحکم ہوجاتا ہے اور
وہ کائنات میں ایک ممتاز مقام حاصل کرلیتا ہے۔
عظیم روحانی سائنس دان
قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے بتایا ہے کہ فکر انسانی کی تین طرزیں ہیں۔ فکر
انسانی کی پہلی طرز یہ ہے کہ وہ نوع انسانی کی حیثیت سے انفرادی طور پر انسان کے اندر
پیدا ہونے والے تقاضوں کو صحیح طرزوں میں استعمال کرتا ہے تو اس کی ہر طرز نوع انسانی
کے لئے اخلاص کا جذبہ ہوتی ہے۔ جب کسی فرد کے اندر نوع انسانی کے لئے خلوص کا جذبہ
کارفرما ہوتا ہے تو وہ ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں اس کی فکر انفرادی تقاضوں سے
ہٹ کر پوری نوعی تقاضوں کو سمجھنے اور محسوس کرنے لگتی ہے اور نوع انسانی کا فرد انفرادی
حیثیت سے نکل کر اجتماعی حیثیت میں داخل ہوجاتا ہے، اس کی سوچ اور اس کے اندر پیدا
ہونے والے تقاضے صرف اپنی ذات تک محدود نہیں
رہتے۔ سوچ اور پورے تقاضے پوری نوع کو محیط ہوجاتے ہیں، انفرادی سوچ نوعی سوچ بن جاتی
ہے۔
جب کسی فرد کے اندر نوع
انسانی کے مجموعی تقاضوں کو سمجھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت بیدار ہوجاتی ہے تو فکر
ایسی وسعتوں میں داخل ہوجاتی ہے جہاں نوعی تقاضوں سے گزر کر کائنات کے مجموعی تقاضے
اس پر منکشف ہوجاتے ہیں۔ نوع انسانی کا ایک فرد جس پر انفرادیت محیط ہے جب نوعی تقاضوں
کے لئے اپنے انفرادی تقاضوں کو مغلوب کردیتا ہے تو اس کے اوپر کائنات کے رموز اور کائنات
کے مجموعی تقاضے منکشف ہوجاتے ہیں، وہ کائناتی تقاضوں سے واقف ہوجاتا ہے۔ جب کوئی فرد
ان تینوں طرزوں سے گزرجاتا ہے تو انسانی فکر، ماورا فکر بن جاتی ہے اور یہ ماورا فکر
ماورائے کائنات ہستی سے آگاہ کردیتی ہے۔
انفرادی سوچ سے نکل جانا
محدود طرز فکر کی فنا ہے۔ فنا در فنا، فنا در فنا کے مراحل سے گزر کر انسان ایک ایسے
نقطے پر پہنچ جاتا ہے جس نقطہ کو فنا نہیں ہے، یہی وہ نقطہ ہے جو ذات مطلق ہے، یہی
وہ انتہا ہے جہاں سے معرفت ذات کی ابتدا ہوتی ہے۔
تمام انبیاء کرام علیہم
السلام اور ان کے بعد ان کے علوم کے وارث اولیاء اللہ نے اسی طرز فکر کا پرچار کیا
ہے کہ بندہ ایثار اور خلوص کا عملی نمونہ بن کر کائنات کے فعال رکن کی حیثیت سے اپنا
مقام حاصل کرلے۔
دعاگو
عظیمی
۲۹، دسمبر ۱۹۹۵ء
مرکزی مراقبہ ہال، کراچی
KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI
۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی خط کو جواب دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔