Topics

چودھری جلال الدین (لاہور)

محترم خواجہ صاحب

السلام علیکم

تصوف میں تصور شیخ کی بڑی اہمیت ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ روحانیت سیکھنے کے لئے تصور شیخ کیوں ضروری ہے…… کیا روحانیت تصور شیخ کے مراقبہ کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔

شکریہ

چودھری جلال الدین (لاہور)

 

محترم چوہدری جلال الدین صاحب

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاۃ

روحانی علوم ہو یا مادی، دونوں منتقل ہوتے ہیں۔ مثلاً جب ہم بچہ کو کسی استاد کی شاگردی میں دیتے ہیں تو استاد بچہ کو بتاتا ہے۔ یہ الف ہے، یہ ب ہے، یہ ج ہے۔ براہ راست اس بات کو اس طرح کہا جائے گا کہ استاد کے ذہن میں الف کا جو تصور یا خاکہ تھا وہ بچہ کے ذہن میں منتقل ہوگیا۔ اگر کسی بچہ کو یہ نہ بتایا جائے کہ یہ الف ہے تو وہ کبھی بھی الف سے آشنا نہ ہوگا اور نتیجہ میں علم حاصل کرنے سے محروم رہ جائے گا۔

اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق قانون یہ ہے کہ ساری کائنات ”روشنی“ ہے۔ ایسی روشنی جو ہر لمحہ اور ہر آن متحرک رہتی ہے۔ وہم، خیال، تصور، احساس سب روشنی کے تانے بانے پر رواں دواں ہیں۔ ہم جب بات کرتے ہیں تو منہ سے نکلے ہوئے الفاظ روشنی کے دوش پر سفر کرکے ہمارے کانوں کے پردوں سے ٹکراتے ہیں اور دماغ مفہوم اخذ کرکے ان کی معنویت سے ہمیں آگاہ کرتا ہے۔

جب کوئی آدمی بہرہ ہوجاتا ہے تو اس کے کانوں میں آلہء سماعت لگادیا جاتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اس آلہ میں بیٹری کے سیل لگے ہوتے ہیں اور ساتھ چھوٹا سا لاؤڈ اسپیکر ہوتا ہے۔ مخالف جب بہرے شخص سے بات کرتا ہے تو بجلی کے ذریعہ آواز کا ویو لینتھ بڑھ جاتا ہے اور اتنا زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ بہرا شخص آواز کے مفہوم اور معنی کو اسی طرح سمجھتا ہے جس طرح عام آدمی سنتا اور سمجھتا ہے۔ مثال سے یہ بتانا مقصود ہے کہ آواز روشنی کی لہروں کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ جب آواز…… روٹین سے کم ہوجاتی ہے یا کانوں کے اندر لاؤڈ اسپیکر کام نہ کرے تو آدمی آوازیں نہیں سن سکتا۔ بعض مریض ایسے ہوتے ہیں کہ بہت معمولی آواز کاوں کے پردوں سے ٹکراتی ہے تو ان کو دماغ کے اندر دھماکہ محسوس ہوتا ہے۔ وہ معمولی آواز سے بھی پریشان اور خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی بجز اس کے کچھ نہیں کہ لاؤڈ اسپیکر کسی وجہ سے خراب ہوگیا ہے۔

ہر شخص کے ساتھ کبھی نہ کبھی یہ بات پیش آتی ہے کہ وہ اپنے مخاطب کو اشاروں سے کوئی بات سمجھاتا ہے۔ اس کے دماغ میں جو خیالات ہوتے ہیں ان خیالات کو اسی طرح قبول کرلیتا ہے جس طرح خیالات، الفاظ کا جامہ پہن کر مخاطب کے دماغ میں منتقل ہوتے ہیں۔ آپ ڈرائنگ روم میں چند دوستوں کے ساتھ گفتگو کررہے ہیں …… ڈرائنگ روم میں کوئی آجاتا ہے۔ آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ ڈرائنگ روم میں نہ آئے۔ الفاظ کا سہارا لئے بغیر اسے آنکھ اٹھا کر دیکھتے ہیں …… دماغ میں یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ یہاں سے چلا جائے…… اس خیال کو وہ پڑھ لیتا ہے…… اور معنی اور مفہوم سمجھ کر وہاں سے چلا جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ بہت سے رازدارانہ خیالات ہمارے اندر آپس میں ردوبدل ہوتے رہتے ہیں اور ہم ان سے اسی طرح خوش ہوتے یا غمگین ہوجاتے ہیں جس طرح الفاظ کا تاثر ہمارے اوپر قائم ہوتا ہے۔

کسی خوبصورت منظر کو دیکھ کر اپنے اندر سکون کی لہروں کا ایک ہجوم محسوس کرتے ہیں۔ دوسری طرف کسی منظر کو دیکھ کر ہمارا دماغ بوجھل، پریشان اور افسردہ ہوجاتا ہے…… نتیجہ یہ مرتب ہوتا ہے کہ منظر کے اندر جس قسم کی روشنیاں دور کررہی ہیں وہ ہمارے اندر منتقل ہو کر ہمیں پرسکون یا پریشان کردیتی ہیں۔

آج کل ماورائی علوم میں ٹیلی پیتھی کا علم بہت زیادہ قبولیت عام حاصل کرگیا ہے۔ ٹیلی پیتھی کا اصول بھی یہی ہے کہ الفاظ کے بغیر خیالات ایک دوسرے کو منتقل کردیئے جائیں۔ ٹیلی پیتھی نے اتنی کامیابی حاصل کرلی ہے کہ ایک ملک سے دوسرے ملک میں بیٹھے ہوئے شخص کو خیالات منتقل کردیئے جاتے ہیں۔ مثالوں سے یہ امر منکشف ہوتا ہے کہ زندگی اور زندگی کے سارے مقاصد لہروں کے اوپر سفر کرتے ہیں۔

تصوف میں تصور شیخ سے مراد ہے کہ شیخ (استاد) کی طرز فکر مرید کے اندر منتقل ہوجائے۔

جیسے جیسے آدمی مراقبہ میں ذہنی یکسوئی کے ساتھ شیخ کا تصور کرتا ہے، شیخ کے اندر روحانی صلاحیت بتدریج مرید کی روحای صلاحیتوں کو طاقت ور بنادیتی ہیں۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ شیخ کی صلاحیتیں مرید کے اندر منتقل ہوجاتی ہیں۔ اس مقام کو تصوف میں ”فنانی الشیخ“ کہا جاتا ہے۔

اسی طرح جب کسی بندہ کے اندر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت، عشق کا درجہ  حاصل کرلیتی ہے تو اس مقام کا نام تصوف میں ”فنانی الرسول“ ہے۔ تصور شیخ کا آسان طریقہ یہ ہے کہ وقت مقرر کرکے اسباق پڑھنے اور سانس کی مشق کے بعد مرید آنکھیں بند کرکے بیٹھ جائے اور یہ تصور کرے کہ شیخ اس کے سامنے ہے۔ تصور میں ذہنی یکسوئی ہونا ضروری ہے۔

ذہنی یکسوئی حاصل کرنے کے لئے مراقبہ کرنے سے پہلے صاحب مراقبہ کو ناک پر چند منٹ نظر جمانی چاہئے۔ اس عمل سے مراقبہ میں بہت جلد یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔

 

دعاگو

عظیمی

۱۸، مئی،

۱۷، جنوری، ۱۹۰۸ء

1-D-1/7، ناظم آباد، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔