Topics

نثار احمد، طاہرہ نثار عظیمی (مانچسٹر)

عزت مآب محترم و مکرم مرشد کریم

السلام علیکم ورحمتہ الہ وبرکاۃ

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و تندرستی عطا فرمائے اور سلسلہ کے پیغام کی ترویج میں مزید ترقی اور برکتیں عطا ہوں۔ آمین

آپ یہاں تشریف لائے اور تشنہ روح کو سیرابی ملی۔ جو وقت ساتھ گزارا وہ مختصر لگا۔ امید ہے کہ جلد ملاقات نصیب ہوگی، انشاء اللہ

حالات و واقعات کے باعث اکثر اوقات ذہنی انتشار پیدا ہوجاتا ہے۔ ہدایات و رہنمائی کی درخواست ہے۔

آپ کے روحانی بچے……

نثار احمد، طاہرہ نثار عظیمی (مانچسٹر)
 

عزیزان گرامی قدر، نثار احمد، طاہرہ نثار عظیمی

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

تقریباًٰ ۲۳ دن کے بعد طبیعت لکھنے پر مائل ہوئی ہے۔ پینڈنگ ڈاک لے کر صبح ۸ بجے بیٹھ گیا تھا۔ ۱۲ بجکر ۲۰ منٹ پر تمام ارجنٹ خطوط پڑھ لئے ہیں، نوٹنگ کردی ہے تاکہ جواب لکھ دیا جائے۔ آپ کو اور طاہرہ کو بقلم خود خط لکھ رہا ہوں۔

ہمارا سب سے بڑا…… دشمن چھپا اور کھلا دشمن شیطان ہے۔ بڑے سے بڑا عالم فاضل آدمی اس کے سامنے طفل مکتب بھی نہیں ہے بلکہ انگوٹھا چوستا بچہ ہے۔ الاّ یہ کہ آدمی کو علم الاسماء حاصل ہو جو ساڑھے گیارہ لاکھ آدمیوں میں جزوی طور پر ایک شخص کو بفضل ایزدی حاصل ہوتا ہے۔ ہر آدمی آسانی سے شیطان کا آلہ کار بن جاتا ہے لیکن…… اگر اسے روحانیت کا سبق یاد ہوجائے تو وہ شیطانی مزاحمت کا سامنا کرتا ہے۔

بس یہی بات شیطان کے لئے سوہان روح ہے۔ وہ ہر اس شخص کے پیچھے لگ جاتا ہے جو خلوص نیت سے روحانی راستہ پر چلنے کی جدوجہد یا آرزو کرتا ہے۔

روحانی زندگی مسلسل امتحان ہے، ایسا امتحان جس کا رزلٹ سامنے نہیں آتا۔ یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ ہم امتحان گاہ میں ہیں۔ سب اندھا کھاتہ ہے۔ اس کھاتے کی مرشد کے سوا کسی کو ہوا بھی نہیں لگنے دی جاتی۔ روحانیت کا مقصد، یقین، عفوودرگزر، عاجزی، انکساری، خودکی نفی، درست ہوش و حواس کے ساتھ مرشد کے احکامات پر غور و تفکر…… اس طرح غور و تفکر کہ اپنی ذات کسی بھی طرح سامنے نہ آئے۔

ہالینڈکے سفر کے دوران فیری میں اور ریل میں اتنی زیادہ باتیں ہوئیں کہ آپ کا ذہن پوری طرح احاطہ نہیں کرسکا۔ میں نے اگر آپ کے اور طاہرہ کے مستقبل کے بارے میں کچھ تعینات کئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا ہوجائے گا یا ایسا کرنا ہے۔ مشکور وممنون ہوں کہ آپ دونوں دوستوں نے میری خواہش پر اس جگہ کو آثار قدیمہ ہونے سے بچایا، اپنا وقت لگایا، چوٹیں کھائیں اور یہ سب مرشد کو خوش کرنے کے لئے کیا۔ اللہ تعالیٰ یقیناً آپ کو صلہ عطا فرمائیں گے…… آپ کے اوپر عنایات الٰہی سایہ فگن رہی ہیں۔

نجی محفل میں عرض کیا تھا کہ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں لیکن معافی کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ جس کے مقدر میں جو ہوتا ہے بہرحال اسے ملتا ہے۔ اللہ کے سامنے عجز و انکساری سے اس میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس وقت میرے جذبات یہ ہیں کہ آپ ”انا“ کی دلدل کے کنارے کھڑے ہیں اور شیطان نے پوری توانائیوں کے ساتھ راستہ کھوٹا کرنے کا آغاز کردیا ہے لیکن…… اللہ کی ذات پر یقین ہے کہ شیطان کا یہ وار خالی جائے گا اس لئے کہ آپ کے مرشد کے سر پر حضورقلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سایہ ہے۔

میری ڈیوٹی اور ذمہ داری ہے کہ میں خیال رکھوں اور…… چاہنے والوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ روحانی باتوں کی حکمت پر غور کریں …… امتحان میں کامیاب ہونے کی کوشش کریں۔ اشاروں کنایوں میں بات کی جاسکتی ہے مگر پرچے کھولنے سے امتحان، امتحان نہیں رہتا۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ اللہ کرے کہ راستہ کھوٹا نہ ہو اور آپ حضرات بخیر وخوبی اس دلدل سے گزر جائیں۔

میرے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ سن لیجئے…… ایک پیر بھائی نے تھائی لینڈ سے حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کے لئے ہوائی جہاز کا ٹکٹ بھیجا تو اچھا نہیں لگا کہ مرشد کریم میرے پاس سے چلے جائیں۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ اپنے مرشد سے چند روز کے لئے بھی دور ہوجاؤں۔ اس خیال کے تحت میں نے پیر بھائی کو سخت سست کہہ دیا۔ رات کو دربار عالی مقام میں حاضری ہوئی تو سیدناحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پوچھا…… پیر بھائی کا نام لے کر……

وہ کیسا آدمی ہے……

عرض کیا

یا رسول اللہ ﷺ وہ اچھے آدمی ہیں

آپ ﷺ نے فرمایا……

اچھا آدمی برا کیسے ہوسکتا ہے…… جب آپ نے ایک دفعہ رائے قائم کرلی اور یہ تسلیم کرلیا کہ فلاں آدمی اچھا ہے تو اسے برا کہنا یا برا سمجھنا کیا معنی رکھتا ہے……

لرزہ طاری ہوگیا اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اللہ کے محبوب ﷺ کے قدموں میں سر رکھ کر معافی مانگی اور اگلے روز پیر بھائی سے دست بستہ معافی کا طلب گار ہوا۔

سنایئے! کہ آپ کیسے ہیں، بیگم کی صحت کیسی ہے، ماشاء اللہ کچھ کمی ہوئی ہے یا ترقی پذیر ہیں ……جس طرح مسلمان قوم یا مسلمان ملک ترقی پذیر ہیں …… ویسے آپ کی بیگم صاحبہ ترقی پذیر نہ ہوں تو اچھی بات ہے اور کچھ نہیں تو کار کا وزن ہی کچھ کم ہوگا، زیادہ تیز اور سبک چلے گی۔ آپ کی بہو کا وقت، پوتی کے ساتھ اچھا گزر رہا ہے۔ ایک بچہ کی مصروفیت تین بڑے آدمیوں کے برابر ہوتی ہے۔ رضا، علیم، تہمینہ اور کو میری طرف سے بہت بہت پیار دیں۔

آپ کے شب و روز میں کیا غیبت نہیں بڑھ گئی ہے…… دوسروں پر تنقید اور تبصرہ بھی غیبت کے زمرہ میں آتا ہے۔ جناب اخلاق مغل صاحب سے پوچھئے! مسجد ضرار کا کیا واقعہ ہے…… ہمیں یہ نہیں سوچنا کہ کوئی کیا کرتا ہے…… بلکہ …… اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی ہے۔ ہر آدمی کے لئے قبر مخصوص ہے۔ کوئی کسی کی قبر کے بارے میں کیوں کھوج لگائے…… ہمیں اپنا آپ شفاف کرنا ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے اس عاجز مسکین بندہ خواجہ شمس الدین عظیمی سے فرمایا……

گرو جو کہے وہ کرو، گرو جو کرتا ہے اس کی نقل نہ کرو۔ گرو جو کہے گرو کے ذہن سے سمجھو، اپنا ذہن استعمال نہ کرو۔

مسجد کے لئے وضوخانہ کی تعمیر شروع کی تو حساب کتاب بجٹ سے باہر نکل گیا، ابھی پلاسٹر، اوپر کا ٹینک، نلکے، ٹونٹیاں، فرش باقی ہے۔ ارادہ یہ ہے کہ مسجد کی چھت کے لئے یہ بھی کردوں …… وہ بھی کام ہوجائے…… تاکہ انہیں آرام ملے…… سلسلہ کے کام احسن طریقے سے ہوتے رہیں۔

بھائی جان حکیم وقار یوسف عظیمی کہہ رہے تھے، ابا! آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں …… آپ کی عمر آرام کرنے کی ہے، گھر میں رہیں، آخر ہمیں بھی آپ کی ضرورت ہے۔ آپ کے پوتوں اور پوتیوں کو آپ کی ضرورت ہے۔ آپ نے جنگل کو مسکن بنالیا ہے۔ آپ اور کتنا تھکیں گے اور کتنے زیادہ بیمار ہوں گے…… میں سوچتا ہوں، بچے بھی ٹھیک کہتے ہیں اور میں بھی ٹھیک ہوں۔

اگر میری زندگی، میری نسل کو لگ جائے تو سودا مہنگا نہیں ہے۔

الحمدللہ! میں بخیریت و عافیت ہوں، خوش ہوں۔

مبارک وصول کریں کہ مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کے مزار شریف کی چھت پڑگئی ہے۔ اللہ نے دعا قبول کی…… اللہ سب کے ارمان پورے کرے۔ آمین

سلسلہ عظیمیہ کے تمام حضرات اور خواتین کو سلام پہنچے۔

 

دعاگو

عظیمی

۲۴، اگست ۱۹۹۶ء

مرکزی مراقبہ ہال، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔