Topics

ریحانہ یوسف (کراچی)

السلام علیکم ورحمتہ اللہ

          سوال یہ ہے کہ نگاہ کیا ہے؟۔۔۔اکثر اس بات کا تجربہ ہوا ہے کہ کوئی شے اردگرد موجود ہوتے ہوئے بھی نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔بزرگوں نے بتایا کہ جب کوئی شے نہ ملے تو انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر تلاش کریں تو مل جائے گی۔اس بات کا تجربہ میرے ساتھ میرے بچوں نے بھی کیا وہ شے مل جاتی ہے۔ سوال پیدا ہوا کہ اس آیت کا نگاہ سے کیا تعلق ہے؟۔۔وہ شے موجود ہوتے ہوئے نگاہ سے کیوں اوجھل رہتی ہے اور اس آیت کے انوار نگاہ یا بصارت کو کس طرح جلا بخشتے ہیں؟۔۔۔ آپ سے اس سوال کے جواب کی طلبگار ہوں۔

          ریحانہ یوسف (کراچی)


وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ

          نگاہ کے تین زاویے ہیں۔ اسی طرح خیال کے بھی تین زاویے ہیں۔

                   ۱۔ نگاہ جو دیکھتی ہے اس کا عکس Negative ہوتا ہے لیکن جب وہ شے مظہر بنتی ہے یا آنکھوںکے سامنےآتی ہے تو سیدھی نظر آتی ہے۔

۲۔شعوری نظر Clock Wise ہوتی ہے۔ اور شعور سے ماورا لاشعور کی حرکت

Anti Clock Wise ہوتی ہے۔

۳۔ جب خیال آتا ہے تو اس میں آدمی معنی پہناتا ہے اور معنی پہنانے میں خاندانی

روایات، ماحول اور قسم قسم کی دلچسپیاں شامل ہوتی ہیں۔ یعنی جو خیال بالکل سادہ

ہوتا ہے۔ اس میں شعور معنی پہنا کر پیش کرتا ہے۔

اس پیشکش میں آدمی کی دلچسپیاں شامل ہوتی ہیں۔مثلاً کچھ پینے کا خیال آیا پانی گرم ہونا چاہیئے یا ٹھنڈا، میٹھا ہونا چاہیئے، شربت ہونا چاہیئے، چائے ہونی چاہیئے۔ شعور اس خیال میں معنی پہناتا ہے۔۔۔۔ مفہوم یہ ہے کہ خیال کو اوریجنل حالت میں قبول نہیں کیا جاتا۔ مرزا غالب نے فرمایا۔

ہستی  کے  مت  فریب  میں  آجایئو اسد

عالم   تمام   حلقہ   دامِ   خیال   ہے

          یہ سب شعوری کیفیات ہیں۔ جب تک پانی میں معنی نہ پہنائے جائیں اس کا شربت نہ بنایا جائے، چائے کے روپ میں تبدیل نہ کیا جائے، اس وقت تک خیال نیوٹرل ہے۔یہ تصوف کا مسئلہ ہے اس پر اگر بار بار غور کیا جائے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ نگاہ کا مطلب عام طور پر یہ لیا جاتا ہے کہ کسی چیز کو دیکھنا۔ لیکن دیکھنا کیا ہے؟۔۔۔ سائنسی نقطہ نظر سے شے کا عکس آنکھ کی پتلی میں تل کی معرفت دماغی اسکرین پر منتقل ہوتا ہے۔اصل میں شعور جو کچھ دکھاتا ہے وہ Negative  کا Positive ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ آدمی زمین پر پیروں سے چل رہا ہے اس کوکشش ِ ثقل یا زمین کی کشش کہا جاتا ہے۔ ذہن میں الٹا عکس اور سیدھا دیکھنا۔۔۔ یہ الگ سوال ہے۔

          آدمی میں اُڑنے کی صلاحیت ہے۔ روز سو جاتا ہے۔ آسمانوں میں اُڑتا ہے اور خیال نہیں ہوتا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ اس کا اطمینان بخش جواب یہ ہے کہ عورت ہو یا مرد اس پر غسل واجب ہو جاتا ہے۔

          انا للہ وانا الیہ راجعون کا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ کی طرف لوٹ رہی ہے۔

          بظاہر کوئی چیز ملنے کا مفہوم واضح نہیں ہوتا لیکن مفہوم پر غور کیا جائے  تو لکھنے کے لئے  سمندر کے پانی کی روشنائی بھی ناکافی ہے۔ جب ہم قرآن کریم کی آیت

                             انا للہ وانا الیہ راجعون

          پڑھتے ہیں بزرگوں سے منتقل ہوا۔ یقین ذہن کو اس چیز کو جہاں وہ چیز پڑی ہوئی ہے متوجہ کر دیتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ چیز ضروری ہی ملے نہیں بھی ملتی۔

          آپ کو چاہیئے سبقاً سبقاً قرآن کریم پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں تفکر کو جگائیں۔ جب ذہن کھل جاتا ہے براہ راست روح کی رہنمائی حاصل ہوجاتی ہے تو اس قسم کے مسائل کے حل خود بخود سامنے آجاتا ہیں۔

                                                                                      دعاگو

                                                                                      عظیمی   

                                                                                      اکتوبر ۲۰۱۴ ء

                                                                                      ماہنامہ قلندر شعور ، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔