Topics

بی بی انورادھا (متحدہ عرب امارات)

محترم و مکرم مرشد کریم

          السلام علیکم ورحمتہ اللہ

          اللہ تعالیٰ آپ کی صحت میں برکت عطا فرمائے۔ جاننا چاہتی ہوں کہ آواز کے بارے میں کیا کچھ بیان کیا جاسکتا ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ مخلوق آواز کو کس طرح سمجھتی ہے۔

          شکریہ

          آپ کی روحانی بیٹی

       بی بی انورادھا (متحدہ عرب امارات) 

         

وعلیکم اسلام ورحمتہ اللہ

          پہلی بات یہ سمجھنی چاہیئے کہ آواز کیا ہے؟۔۔ آواز جو لفظ بولے جاتے ہیں ہمارے ذہن میں ان کا مفہوم آتا ہے۔۔۔ ہم کہتے ہیں جل۔۔۔بولنے والا ج ل = جل کہنے سے اپنے اندر ایک تصویر دیکھتا ہے جس کی شکل و صورت پانی ہے۔ یعنی جب آپ نے ج ل = جل کہا، آپ کے علاوہ دوسرا آدمی چونکہ یہ اس کی مادری زبان نہیں ہے یا وہ لاعلم ہے تو وہ کچھ نہیں سمجھے گا لیکن جل بولنے والے ہر فرد کے ذہن میں ایک تصویر بنتی ہے ۔ جیسے ہی ج ل ( جل) زبان سے ادا ہوتا ہے دماغ کی اسکرین پر پانی کی تصویر بنتی ہے یعنی لفظ بظاہر باہر بولے گئے مگر تصویر اندر کی بنی۔ آپ جب کہیں گی جل لاؤ۔ ابھی الفاظ پورے نہیں ہوں گے آپ کے دماغ کی اسکرین پر پانی نظر ائے گا۔ یہی صورتِ حال ہر لفظ کی ہے۔ آپ ایسے آدمی سے جو ہندی نہیں بولتا، کہیں کہ جل لاؤ۔۔۔ وہ کچھ نہیں سمجھے گا۔

          قانون نمبر ۲:  جب ہم کسی شے کو دیکھتے ہیں تو دیکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اس شے کی تصویر دماغ کی اسکرین پر نمایاں ہوتی ہے۔ انگریز کو پانی کہیں تو یہی تصویر وہ واٹر بولنے سے سمجھے گا بلکہ اس کے دماغ کی اسکرین پر تصویر بنے گی۔

          اس قانون کو غور سے پڑھیئے۔۔۔ آپ کو دو حقیقتوں کا ادراک ہوگا۔

                   پانی یعنی ایسی شے جو نام لینے سے اپنی صفات ظاہر کرتی ہے۔ جیسے بکری،

                   بکری کا مطلب بکری نہیں۔۔۔ بکری کا مطلب بکری کی صفات ہیں۔

          اس قانون کو سمجھنے کے لئے ۲۰ مرتبہ مختلف زاویوں سے غور و فکر کریں۔

                   نظام کائنات میں کسی چیز کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے پہلے سننا۔۔۔۔۔

                   متوجہ ہو کر سننا ۔ توجہ یہ ہےاب جو چیز نظر آرہی ہے اس میں معنی پہنانا۔

          یہ آواز کا وہ قانون ہے جو ابھی تک واضح طور پر بیان نہیں ہوا۔

          اللہ تعالیٰ جب بحیثیت خالق کے اپنا تعارف کراتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ

                   تم میری سماعت سے سنتے ہو، میری بصارت سے دیکھتے ہو اور میرے

                   ادراک ( سوچ ، سمجھ، فہم ، کسی چیز کو گہرائی میں سمجھنا) سے شے کا

                   تعارف حاصل کرتے ہو۔

          اللہ تعالیٰ صاحبِ قدرت ہیں اور بندہ صاحب ِ قدرت ہستی کی تخلیق ہے۔ اللہ کو جاننے اور پہچاننے اور اللہ کی باتوں کو سمجھنے، اللہ کے حکم کی تعمیل کرنے کے لئے بندہ تفکر کرتا ہے۔ تفکر یہ ہے کہ جس شے کا نام لیا ہے اس کی وضاحت سامنے آجاتی ہے جو دراصل اللہ کی صفات کا عکس ہے۔

          آسمانی کتابوں میں اللہ کا تعارف یہ ہے کہ

                   انسان پر زمانہ میں ایک وقت ایسا تھا جب وہ ناقابلِ تذکرہ شے تھا۔

 ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ (Zygote) سے تخلیق کیا تا کہ اس کا

امتحان لیں اور اسے سماعت اور بصارت دی۔ ہم نے اسے راستہ

دکھا دیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔        الدھر :  ۳۔۱

          جو جواب دیا گیاہے اس میں آپ کے تمام سوالات کا جواب ہے۔ اگر کوئی بات سمجھ نہ آئے تو غور کریں سمجھیں اور لکھ کر پوچھیں۔ جو کچھ آپ نے سمجھا اس کی کم از کم دس مثالیں تلاش کریں اور الگ الگ نمبر وار لکھ کر بھیج دیں۔

          اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے ، اپنے شوہر کو بہت دعا اور سلام کہیں۔ بچوں کو پیار۔

                                                                                                دعاگو

                                                                                                عظیمی

                                                                                                ۲۶ جون ، ۲۰۱۸

                                                                                       ماہنامہ قلندر شعور ، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔