Topics

سید افتخار الحسن

محترم عظیمی صاحب

          السلام علیکم

          آپ کی صحت کے لئے دعاگو ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی کاوشوں میں مزید برکت عطا فرمائے۔ آمین

          عرض یہ ہے کہ زندگی میں پیش آنے والے عوامل پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے امور میں آدمی با اختیار ہے اور ایسے عوامل بھی ہیں کہ وہ بے اختیار ہے۔ گہرائی میں غور کیا جائے تو ذہن سوال کرتا ہے کہ

                   کیا واقعی آدمی بااختیار ہے

                   اگر وہ بااختیار ہے تو اسے کس حد تک اختیارات حاصل ہیں اور اگر بے اختیار ہے تو پھر جزا و سزا کیا ہے؟

          بہت شکریہ

        سید افتخار الحسن

 

          عزیز برخوادار سید افتخار الحسن

          وعلیکم اسلام ورحمتہ اللہ

          آدمی جب تک زندہ ہے اور اس کے اندر عقل و شعور کام کرتا ہے، وہ ایک حد تک با اختیار ہے اور بڑی حدتک بے اختیار ہے۔ مثلاً کوئی آدمی اپنے  ارادہ اور اختیار سے سانس لینا شروع کر دے تو چند منٹ کے بعد سانس لینا اس کے لئے ممکن نہیں رہے گا۔ وہ ارادہ اور اختیار سے سانس نہ لے تو بیمار ہو جائے گا یا اس کے دماغ میں خون جم جائے گا۔

          عام زندگی میں ہر فرد کو بھوک لگتی ہے وہ کچھ کھا لیتا ہے، پیاس لگتی ہے تو پانی پی لیتا ہے۔ یہی حالت آدمی کے اندر اس مشین کی ہے جو مسلسل چل رہی ہے۔ اس مشین کے کل پرزے ، اعضائے ریئسہ،دل،پھیپھڑے،گردے،جگر،پتا اور آنتوں کی حرکات ہیں۔ سات ارب کی آبادی میں ایک آدمی بھی ایسا نہیں ہے جو ارادہ اور اختیار سے اندر کی مشین کو چلاتا ہو۔ مشین مکمل غیر اختیاری طور پر چل رہی ہے۔ اس مشین میں جو ایندھن استعمال ہوتا ہے اس پر بھی آدمی کی  دسترس نہیں ہے۔

          ثبوت یہ ہے کہ جب آدمی کے اندر مشین بند ہو جاتی ہے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت یا توانائی اسے چلا نہیں سکتی۔ یہ مشین قدرتی نظام کے تحت بدتریج بند ہوتی ہے اور ایک دم بھی بند ہو جاتی ہے۔ بدتریج بند ہونے کا نام بیماری ہے اور مشین کے ایک دم بند ہو جانے کو ہارٹ فیل ہونا کہا جاتا ہے۔آدمی یہ سمجھتا ہے کہ بیماری کا علاج اختیاری ہے۔ اگر بیماریوں کا علاج اختیاری ہے تو آدمی مر کیوں جاتا ہے۔

          علیٰ ہذا القیاس زندگی کے بنیادی عوامل اور وہ  تمام محرکات جن پر زندگی رواں دواں ہے، اختیار میں نہیں ہیں۔ بااختیار ہونے سے مراد یہ ہے کہ بندہ خود اپنے لئے کوئی ایک راستہ اختیار کرتا ہے۔ جبکہ ہر آدمی کو اس بات کا اختیار دیا گیا ہے کہ نیکی اور بدی دونوں راستوں میں سے کسی ایک راستہ کا انتخاب کرے۔ راستہ اور راستہ کی جزئیات کا تعین پہلے سے ہے اس میں آدمی کا عمل دخل نہیں۔ آدمی کو صرف ارادہ کا اختیار دیا گیا ہے۔

                             زندگی کی ہر حرکت ، زندگی کاہر عمل، زندگی کا ہر تصور، ہر ادراک اور

                             احساس دو رخوں میں ردوبدل ہو رہا ہے۔ایک کا تعلق شیطنیت سے ہے

           اور دوسرے کا تعلق رحمٰن سے ہے۔

جب کوئی آدمی اپنے اوپر ان خیالات کو مسلط کر لیتا ہےا ور خود کو درد و بست اس راہ کا مسافر بنا لیتا ہےجو راستہ شیطان تک لے جاتا ہے تو اس کے اندر اس راستہ کی تمام بُرائیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ آدمی اگر ارادہ اور اختیار سے مسلسل شیطانی راستہ پر چل رہا ہے تو ظاہر ہے اس کے اوپر اس راستہ میں پیش آنے والے تمام حالات و واقعات کا تاثر قائم ہوگا۔

          فرد ایسے راستہ کا انتخاب کرتا ہے جس راستہ میں ہرے بھرے درخت ہیں، پھول ہیں، سبزہ زار ہے، آبشاریں ہیں تو راستہ کے مناظر سے لطف اندوز ہوگا، درختوں کا سایہ ملے گا، دماغ راستہ میں موجود پھولوں کی خوشبوؤں سے معطر ہو گا۔ سبزہ زار سے اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملے گی، آبشار کا صاف شفاف اور موتی جیسا پانی پینے کو ملے گا اور اس کے اوپر سرور اور وجدان کی کیفیت طاری ہوگی۔

          اس کے برعکس دوسرا بندہ ایسا راستہ اختیار کرتا ہے جس میں خشک اور کانٹوں سے بھرے درخت ہیں ، خزاں زدہ مناظر ہیں۔ راستہ میں ایسے جوہڑ ہیں جن میں تعفن ہے۔ آدمی ان تمام چیزوں سے متاثر ہوگا اور اگر وہ اس راستہ کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہے اور وہ راستہ اختیار نہیں کرتا جس میں سرشاری،شادابی، شگفتگی اور آسائش و آرام ہے تو تعفن ، الجھن اور بے زاری کی دنیا سے کبھی آزاد نہیں ہوتا۔

          ایک آدمی بُرے اراد سے گھر سے نکلتا ہے۔ انسپائریشن کا نظام چلانے والے فرشتے اس کے زہن میں ترغیب کے ذریعے یہ بات ڈال دیتے ہیں کہ یہ کام بُرا ہے اور بُرے کام کا انجام بُرا ہوتا ہے۔ آدمی ترغیب کو اہمیت نہیں دیتا اور قدم بقدم آگے بڑھ کر ارادہ کی تکمیل کرنا چاہتاہے۔ فرشتے ڈوریوں کو اس کے ارادہ کے تحت حرکت دے دیتے ہیں او ر عمل ریکارڈ ہو جاتا ہے۔

          آدمی خلوص نیت سے کسی کی مدد کرتا ہے۔ ارادہ کے مطابق حرکت ہوتی ہے تو اس کے اوپر سکون کی حالت قائم ہو جاتی ہے۔ دونوں آدمیوں نے اپنے ارادہ اور نیت کے تحت عمل کیا۔ جیسے جیسے اس پروگرام کو پورا کرنے کے لئے اقدام کی ضرورت تھی اس کے مطابق ڈوریاں ہلتی رہیں۔ عمل ہوتا رہتا ہے اور ساتھ ساتھ ریکارڈ بھی ہوتا ہے۔جزا و سزا کا تعین اس ریکارڈ کی بنیاد پر ہے۔

          اللہ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کے ذریعہ نوع آدم کویہ بتا دیا ہے کہ سیدھی طرف کا راستہ جنت کا ہے اور الٹی طرف کا راستہ دوزخ ہے۔ چونکہ فرد کو چلنے کا اختیار دیا گیا ہے اس لئے اسے یہ اختیار بھی حاصل ہو گیا کہ وہ جو راستہ چاہے اپنے لئے منتخب کر لے۔

                                                                                      دعاگو

                                                                                       خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                                                      جون ۱۹۹۹ء

                                                                                      مرکزی مراقبہ ہال، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔