Topics

ڈاکٹر مظفر عظیمی

محترم ڈاکٹر مظفر صاحب

          وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ

          قرآن نے غور فکر اور ریسرچ ( تجسس و تحقیق) کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قرار دیا ہے چناچہ کائنات کے انتظام و انصرام کے لئے جو قوانین جاری و ساری ہیں تو ان کو جاننا ہر ذی شعور مسلمان کا فرض ہے، اس لئے کہ اللہ کی نشانیوں میں تفکر اور تدبر کے نتیجہ میں سائنسی حقائق کا مشاہدہ ، صاحب تفکر کو اللہ کی ذات پر ایمان لانے پر مجبور کر دیتاہے۔ رسول اللہ کا ارشاد گرامی ہے

                   ۔ حکمت سیکھو جہاں سے بھی ملے

                   ۔ حکمت مومن کی کھوئی ہوئی پونجی ہے، جہاں کہیں اس کو پائے اٹھالے

                   ۔ ایک ساعت کا تفکر ساٹھ سال کی عبادت سے افضل ہے

                   ۔ طلب علم بہترین عبادت ہے۔

                   ۔ علم اسلام کی حیات اور اسلام کا ستون ہے

                   ۔ہر مسلمان مر دا ور ہر مسلمان عورت پر علم سیکھنا فرض ہے

                   ۔جو شخص دنیاوی فوائد حاصل کرنا چاہتاہے  اس کے لئے ضروری ہے کہ علم حاصل کرے، جو شخص اخروی متاع حاصل کرنا

                   چاہتا ہے ، قرآن کریم رہنمائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے

                   ۔ علم سیکھو چاہے تمھیں چین جانا پڑے

          رب العالمین کے فرستادہ ، رحمت العالمین علیہ الصلوٰ ۃ السلام کے ارشادات اور دعوت علم کا اثر یہ ہو کہ امتی پوری توجہ اور جذب و شوق کے ساتھ علم حاصل کرنے میں مشغول ہوگئے۔جہاں سے بھی علم حاصل ہو سکتا تھا حاصل کیا اور علم کی فضیلت نے علوم وفنون میں کرۂ ارض پر قائد اور رہنمابنا دیا۔ مسلمانوں نے اپنے علوم کی بنیاد اوہام پرستی ، قیاس آرائی اور مفروضہ باتوں پر نہیں رکھی بلکہ ہر میدان میں تجربہ اور مشاہدہ کی بناء پر نئی نئی تحقیقات کیں جس کے نتیجہ میں مسلمان طبیب ، ہئیت دان ، جابر ، فارابی ، زکریا ، ابن سینا ، خوارزمی ، عمر خیام ، نصیر الدین طوسی، ابن الہیثم ، ابن محمد قزوینی ، رازی ، ابوالقاسم زہراوی ، ابو ریحان البیرونی ، ابن خلدون ، امام غزالی رحمتہ اللہ وغیرہ پیدا ہوئے اور انہوں نے محنت اور تحقیق سے سائنسی علوم میں غیر معمولی اضافہ کیا۔

          مسلم ماہرین علم نے بنی نوع انسان کے علم میں نہایت اہم اضافے کئے ۔ ان نامور مصنفین کی تصنیفات پڑھ کر موجودہ زمانے کا تعلیم یافتہ شخص ان کتابوں کی ایک امتیازی خصوصیت یہ بیا ن کرتا ہے کہ ان میں کہیں بھی اسلامی عقائد کے ساتھ تضاد اور مخالفت نہیں پائی جاتی۔کسی جگہ بھی اسلام اور سائنس کا ٹکراؤنہیں ہوتا۔

          آج کا غیر متعصب دانشور جب تخلیق کائنات اور تخلیقی اسرارو رموز پر غور کرتا ہے اور اس سوچ بچا ر اور تفکر کو آسمانی کتاب قرآن پاک سے ملاتا ہے تو یقینی اور حقیقی ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ تحقیق و تلاش انسان کی پیدائشی خاصیت ہے۔دانشور جب تحقیق و تلاش کے صحیح مقام کا تعین کرتا ہے تو وہ جان لیتا ہے کہ سائنس دراصل تخلیق و تسخیر اور موت وحیات کی حقیقت اور اس کے تمام رازوں تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔

          قرآن کریم میں اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے آدم کو اپنی نیابت عطا کی اور اس کو سارے نام سکھا دئیے۔ نیابت سے مراد اللہ کے خصوصی اختیارات کا استعمال ہے۔ خصوصی  اختیارات کے استعمال کا سوال اسی وقت زیر بحث آتا ہے کہ جب اختیارات استعمال کرنے کے قواعد اور قوانین سے واقفیت حاصل ہو۔ اختیارات کے قوانین کے استعمال سے با خبر کرنے کے لئے اللہ نے آدم کو علم الاسماء سکھایا۔ اس سے مراد یہی ہے کہ آدم کو تسخیر کائنات کی سائنس سکھا دی گئی تاکہ وہ اس خصوصی علم کے ذریعے کائنات پر حکمرانی کر سکے۔

          علمی اعتبار سے سائنس کا علم فطرت اور کائنات کا علم ہے۔ سائنس کا مقصد ہے کہ کائنات کے افراد اور افراد کے اجزائے ترکیبی کی تخلیق و ترکیب اور مقداروں کا پتہ چلے جو ایک ضابطہ کے ساتھ متحرک ہیں۔ حرکت ہر شے کی زندگی ہے۔علمی طور سے سائنس کا منشا تسخیر کائنات کی صلاحیت کو بیدار اور متحرک کرنا، زمین اور آسمان کے خزانوں سے استفادہ کرنا ہے۔

          ایک وقت تھا کہ یورپ علم کے میدان میں خالی ہاتھ تھا۔وہاں جہالت اور اندھیروں کے سوا کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی۔ مسلمان چونکہ نبی آخرالزماں کی تعلیمات پر عمل پیراہ تھا اس لئے وہ من حیث القوم ممتاز تھا اور جیسے ہی وہ نبی آخرالزماں کی تعلیمات ، فکر و تدبر اور تحقیق و ترقی کے علوم سے دور گیا اسی مناسبت سے اس کی زندگی انفرادی طور پر اور من حیث القوم جہالت اور تاریکی میں ڈوبتی چلی گئی اور جس قوم نے علم کے حصول اور سائنسی ترقی کو اپنے لئے لازم قراردے لیا وہ بلند اور سرفراز سمجھی جانے لگی۔

          یہ اللہ کا قانون ہے۔۔۔۔ جو قوم اپنی حالت نہیں بدلتی اللہ اس کی حالت تبدیل نہیں کرتا ۔سیدنا حضور کے ارشادات گرامی کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کائنات میں پھیلی ہوئی نشانیوں میں تفکر کریں اور تحقیق و تلاش کے شعبہ میں ترقی کر کے باشعور قوم بن جائیں۔

          پشاور مراقبہ ہال میں سب دوستوں کو، والد صاحب کو اور والدہ کو میرا سلام عرض کریں۔۔۔۔۔ عرس کے مبارک موقع پر تشریف لائیں ، بہت خوشی ہوگی۔

                                                                              دعا گو

                                                                            عظیمی

                                                                             ۱۰، فروری  ۱۹۸۴ء

                                1-D-1/7 ، ناظم آباد ۔ کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔