Topics

مبارک الٰہی( اسلام آباد)

محترم مرشد کریم

          السلام علیکم ورحمتہ اللہ

          الحمد اللہ ! اللہ کی توفیق کے ساتھ اسباق اور مشقیں جاری ہیں۔ رات سونے سے پہلے شمع بینی کی مشق کرتا ہوں اور اس کے بعد روضہ رسول کے تصورکے ساتھ ۳۱۳ مرتبہ درود خضری کے ورد کی ادائیگی ہے۔ اس سے پہلے رسول اللہ ﷺ کا مطالعہ بھی شامل ہے۔ صبح نماز فجر کی ادائیگی کے بعد تصورِ شیخ کا مراقبہ جاری ہے۔ کوشش ہوتی ہے کہ اسباق کے دوران ذہن حاضر اور ذکر میں رہے۔ البتہ سانس کی مشق سے مطمئن نہیں ہوں۔ سانس توجہ اور آہستگی سے لیتا اور خارج کرتا ہوں، اس کے باوجود سانس میں گہرائی نہیں ہے۔ لگتا ہے پھپھڑے تنگ اور کم زور ہیں۔ راہ نمائی کی درخواست ہے۔

          نیاز مند

مبارک الٰہی   ( اسلام آباد)

         

          وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ

          برادر بجان برابر۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور زندگی کے لمحات کو مبارک و مقبول فرمائے۔

          آپ کی دل نواز تحریر میں نے پڑھی۔ آپ نے سلسلہ کے اسباق کے بارے تفصیل لکھی ہے۔ نہایت مبارک بات ہے کہ وقت کی پابندی کے ساتھ اسباق اور مشق جاری ہے۔

          عزیز بھائی اللہ کی ہر تخلیق حواس کے ساتھ زندگی گزارتی ہے۔ زندگی کے دو رخ متعین ہیں۔

                   ۱۔ ایک رخ میں الوژن  (illusion) ہے، ٹوٹ پھوٹ ہے، یقین کی لہریں منتشر ہیں۔

                   ایسی صورت میں کوئی بھی کام، کوئی بھی تحریر یقینی یا ہم جوچاہ رہے ہیں نتیجہ اس کے

                   مطابق نہیں ہوتا۔ اگر خیالات کی تعمیل اور تکمیل میں شکست وریخت ہے تو سارا

                   عمل الوژن ( فریب نظر ) کہلائے گا۔

                   ۲۔ دوسرا رخ جس کے اوپر پردہ پڑا ہوا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے، وہ یقین

 اور ایمان ہے۔

          فریب نظر، الوژن۔۔۔۔ وہ عمل ہے جسے ثبات نہیں۔ اس کے لئے دو رخ حضور پاک ﷺ کی تعلیمات کے مطابق یقین اور بے یقینی ہیں۔ آپ نے اسباق کے بارے میں تحریر فرمایا ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے میں جدو جہد کرتا ہوں کہ ناغہ نہ ہو۔ لیکن عزیز دوست! اگر کسی عمل میں اور مسلسل عمل میں نتیجہ منفی ہو یعنی نتیجہ مرتب ہوتا ہے اور فوراً تیاری شروع ہو جاتی ہے اور جب خیالات کی تکمیل ہوتی ہے تو وہ چیز نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے البتہ اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں اور اس سارے عمل کی کسوٹی پیغمبران کرام اور خاتم النبیین حضور پاک ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ہے۔

          ہم اسکول میں پڑھتے ہیں۔ ہر سال کلاس میں تبدیلی ہو جاتی ہے۔ پہلی کلاس، دوسری کلاس، میٹرک، بی اے، ایم اے، ایم فل، پی ایچ ڈی۔۔۔۔ یہ سب مراتب ہیں جو الوژن کی بیس ( بنیاد) نظر آتے ہیں۔ غور کریں گے تو انشاء اللہ انکشاف ہوگا اور اس انکشاف میں مثبت اور منفی دونوں خیالات مظہر بن جائیں گے۔

                   اللہ کے معاملات میں یقین کار فرما ہے۔

          اللہ کو پہچاننا، تسلیم کرنا اور قرآن میں بیان کردہ قانون کو سمجھنا صراطِ مستقیم ہے۔ جس طرح نرسری کی کلاس سے آدمی ایم اے یا پی ایچ ڈی تک پہنچ جاتا ہے اسی طرح صلوٰۃ ایسا عمل ہے کہ جس سے ذات ِ باری تعالیٰ اور اس کے محبوب ﷺ کا یقین حاصل ہوتا ہے۔

          قرآن کریم میں دوکٹیگری بیان ہوئی ہیں۔

                   یہ بدوی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ ا سے کہو تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو

                   کہ اسلام لائے ہو، ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔

                   الحجرات :۱۴

          نماز کے ارکان پر غور کیجیئے۔ زندگی کی حرکات و سکنات میں ذہن اللہ کی طرف متوجہ رہے، سب حرکات نماز میں ہیں۔ نماز کے ارکان پر غور کریں تو بات کھل کر سامنے آجائے گی لیکن یہ بھی سوچنا ہے کہ ہم دفتر میں آٹھ گھنٹے بیٹھے ہیں۔ خیالات میں انتشار ہو جائے تو ڈیوٹی پوری نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے۔ پڑھنا بالکل الگ بات ہے لیکن تعلیم میں تفکر کرنا الگ بات ہے۔

          ”سینہ“ فراخ نہ ہونے کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے، اس کے بارے میں تفکر کیجیئے، انشا ء اللہ بات کھل جائے گی۔

                                                                                      دعاگو

                                                                                      عظیمی

                                                                                      ۱۵ جولائی ۲۰۱۹ء

                                                                                      ماہنامہ قلندر شعور،کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔