Topics
محترم
عظیمی صاحب
السلام
علیکم ورحمتہ اللہ
ٹیلی
پیتھی کے بارے میں وضاحت فرمادیں کہ یہ کیا علم ہے اور اس کی روحانی حیثیت کیا ہے……
ٹیلی پیتھی کا علم سیکھنے کے لئے استاد کا ہونا ضروری ہے یا آدمی خود کتابوں میں پڑھ
کر مشقیں کرسکتا ہے……
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ
یہ ٹیلی پیتھی ہے! یہ جملہ عام طور پر اس وقت ادا کیا جاتا ہے
جب کوئی عجیب و غریب ذہنی واردات عام آدمی کی اپنی روزمرہ ذہنی روش کو جھنجوڑ کر رکھ
دے۔ ٹیلی پیتھی کا لفظ ملکۂ وکٹوریہ کے زمانے میں چند لوگوں نے تجویز کیا جنہوں نے
ایک سوسائٹی British Society of
physical Research بنائی۔
ان کے سامنے مقصد یہ تھا کہ مافوق الفطرت واقعات کی چھان بین کی جائے۔ یہ لفظ سوسائٹی
کے ایک ممبر مسٹر واٹرس نے وضع کیا جو یونانی زبان کے دو الفاظ کا مرکب ہے جن کا مطلب فاصلہ سے محسوس کرنا ہے۔ یہ الفاظ
ان تمام واقعات کا بھی احاطہ کرتے ہیں جو دو اشخاص کے درمیان بغیر کسی میڈیم کے عمل
میں آتے ہیں۔
مسٹر واٹرس کی اپنی تشریح یہ تھی کہ ایک ذہن دوسرے ذہن کے حواس
خمسہ کو ذریعہ بنائے بغیر اثر ڈال سکتا ہے۔ سوسائٹی نے بعد میں ایک اصطلاح Telepathy (انتقال خیال) اختیار کی۔ عجیب بات یہ ہے کہ Telepathy کو
برطانیہ کی حکومت کی سرپرستی حاصل نہ ہوسکی۔
البتہ اشتراکی ممالک میں حکومتی سطح پر تحقیق کا سلسلہ شروع
ہوگیا لیکن اس کے ساتھ ہی یہ شکل بھی پیش آئی کہ وہ اس کو صرف مادہ کے حوالہ سے ثابت
کرنا چاہتے تھے لیکن اس کے باوجود بھی اشتراکی ممالک میں ماورائی علوم پر ریسرچ ہوئی
ہے۔ ان علوم میں ماورائی علوم کی ایک شاخ ٹیلی پیتھی بھی ہے۔ ماورائی علوم میں ریسرچ نے اتنی زیادہ کامیابی حاصل کی کہ
وہاں ان علوم سے متعلق یونیورسٹیاں قائم ہوگئیں۔
جہاں تک سائنسی اعتقادات کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ ہر چیز کا قیام
لہروں پر محیط ہے۔ دراصل وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ زندگی لہروں سے مرکب ہے۔ زندگی کا
تجربہ یہ بات روشن کرتا ہے کہ دراصل خیالات کے ردوبدل کا دوسرا نام ہے۔خیالات کا یہ
ردوبدل انفرادی طور پر بھی ہوتا ہے اور اجتماعی طور پر بھی۔ انفرادی طور پر اس طرح
کہ ایک ہی خیال ذہن پر بار بار وارد ہوتا ہے اور کچھ وقفہ کے لئے گم ہوجاتا ہے اور
پھر یہ خیال سامنے آجاتا ہے۔ مثلاً بھوک، پیاس، خوش ہونا یا غمزدہ ہونا، کسی کو پیار
کرنے کی خواہش یا یہ تقاضا کہ ہمیں کوئی پیار کرے، گرمی سردی کا احساس، صحت و بیماری
کے خیالات جن کا ردوبدل میں آدمی ساری زندگی بسر کرتا ہے۔ خیالات میں اجتماعی ردوبدل
یہ ہے کہ کائنات میں ہر فرد دوسرے تمام افراد سے خواہ وہ کسی بھی دوسرے سیارے میں موجود
ہو ہم رشتہ ہے۔
سائنسی نقطہ نظر سے ہٹ کر ان لوگوں کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے
جو مادے (Matter) کو مفروضہ (Fiction) قرار دیتے ہیں
تو یہ نظریہ سامنے آتا ہے کہ مفروضہ حواس سے خود کو آزاد کیا جاسکتا ہے اور یہ ممکن
ہوجاتا ہے کہ مسلمہ حواس کو ذریعہ بنائے بغیر کسی بھی سیارے میں آباد مخلوق کو اپنا
پیغام پہنچایا جاسکتا ہے۔ روحانی مکتبہ فکر ان ہی مشاہدات اور تجربات پر کام کررہا
ہے اور ان ہی نظریات کو فروغ دینے کے لئے انبیاء کرام علیہم السلام اس دنیا میں تشریف
لائے اور بالآخر اس پیغام کی تکمیل ہوگئی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جب خواب کا تذکرہ آتا ہے تو ہم فرائڈ کو
سامنے لے آتے ہیں اور قرآن پاک میں خواب کی اہمیت و حکمت کے بیان کو محض برکت کے حصول
کا ذریعہ سمجھتے ہیں جبکہ اللہ کے ارشاد کے مطابق خوابوں کے ذریعے غیب کا انکشاف ہوتا
ہے اور ہم خواب کی حقیقت جان کر زمان و مکان (Time & Space) کی زندگی سے آزاد ہونے کا
فارمولا معلوم کرسکتے ہیں۔
روحانیت کا تذکرہ آتا ہے تو ہم سائنسی اصطلاح "Aura" پر اپنی پوری
توجہ مرکوز کردیتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ کو کوئی نہیں پڑھتا۔ شاہ صاحب نے Aura کو
جسم مثالی کے نام سے متعارف کرایا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ Aura (جسم مثالی) کتنے رنگوں سے مرکب ہے اور ہر رنگ ایک
زندگی رکھتا ہے اور یہی رنگ خیالات بن کر ہماری زندگی کے تقاضے بن جاتے ہیں۔
جب ہمارے سامنے ٹیلی پیتھی کا لفظ آتا ہے تو ہمارے اوپر حیرت
و استعجاب کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جب ہم مراقبہ کا تذکرہ کرتے ہیں تو لوگوں کی
پیشانیوں پر بل پڑجاتے ہیں حالانکہ مراقبہ ایک ایسا مسلمہ عمل ہے جس میں کامیابی کے
بعد انتقال افکار تو معمولی بات ہے آدمی فرشتوں سے ہمکلام ہوجاتا ہے۔
انسانوں کے درمیان ابتدائے آفرینش سے بات کرنے کا طریقہ رائج
ہے۔ آواز کی لہریں جن کے معنی متعین کرلئے جاتے ہیں سننے والوں کو معطل کرتی ہیں۔ یہ
طریقہ اس ہی تبادلہ کی نقل ہے جو انا کی لہروں کے درمیان ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ
گونگا آدمی اپنے ہونٹوں کی خفیف جنبش سے سب کچھ کہہ دیتا ہے اور سمجھنے کے اہل سب کچھ
سمجھ جاتے ہیں۔ یہ طریقہ بھی پہلے طریقہ کا عکس ہے۔ جانور آواز کے بغیر ایک دوسرے کو
اپنے حال سے مطلع کردیتے ہیں، یہاں بھی انا کی لہریں کام کرتی ہیں۔
درخت آپس میں گفتگو کرتے ہیں، یہ گفتگو صرف آمنے سامنے کے درختوں
میں ہی نہیں ہوتی بلکہ دوردراز کے ایسے درختوں میں بھی ہوتی ہے جو ہزاروں میل کے فاصلے
پر ہوتے ہیں۔ یہی قانون جمادات میں بھی رائج ہے۔ کنکروں، پتھروں، مٹی کے ذرّوں میں
من عن اسی طرح تبادلہ خیال ہوتا ہے۔
ٹیلی پیتھی ایک اصطلاح ہے جس کے معانی اور مفہوم وہی ہیں جو
ہمارے اسلاف کے مراقبہ کے ذریعہ حاصل شدہ معلومات کے بارے میں بیان کرتے ہیں۔ کوئی
بھی علم استاد کے بغیر نہیں آتا۔ ہر علم کو سیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ کوئی استاد طالب
علم کو سکھائے۔
دعاگو
عظیمی
۲۷، مئی ۱۹۹۴ء
مرکزی مراقبہ ہال، کراچی
KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI
۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی خط کو جواب دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔