Topics

تسلیم بیگم جی اے (کراچی)

محترم بزرگ

السلام علیکم

اس تاریخی واقعہ کی کیا توجیہہ ہوسکتی ہے کہ جب ہمایوں بیمار ہوا تو بابر نے ہمایوں کے گرد طواف کرکے یہ دعا مانگی کہ اللہ تعالیٰ میری زندگی میرے بیٹے کو دیدیں نتیجہ میں شہنشاہ بابر اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے اور ہمایوں صحت یاب ہوگیا۔

تسلیم بیگم جی اے (کراچی)

 

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ

قانون قدرت کی پہلی دفعہ یہ ہے کہ ہر شہود کے پس پردہ غیب ہوتا ہے۔ غیب سے ہی شہود یا مظہر نمود ہوتا ہے۔ مثلاً ہمارے سامنے ایک درخت ہے…… اس درخت کے تمام ظاہر پہلو ہماری عقل کے دائرہ میں شامل ہیں۔ ہم ان کا تجزیہ کرسکتے ہیں …… ان کو دیکھ سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں لیکن اس کا داخلی پس منظر بھی ہے۔ جس کے بارے میں ہماری فکر ہمارے تجربات کے نتائج صفر کے برابر ہیں۔

اگر موجودہ سائنس کی رو سے ہم کسی مادی شے کی تقسیم الیکٹران تک کرسکتے ہیں یا روشنی کی تقسیم پروٹان تک۔ پھر بھی یہ تشنگی باقی رہتی ہے جس کے بارے میں ہم بالکل لاعلم ہیں کہ

پروٹان کیا ہے……

الیکٹران کیا ہے……

اس کی تعمیر کیسے ہوئی اور اس کی اصل کیا ہے……

شروعات میں کیا تھا اور شروعات سے پہلے اس کی نوعیت کیا تھی……

یہ سارے پہلو مخفی اور غیب ہیں۔ انسان جہاں تک رسائی حاصل کرسکتا ہے اس کے بعد پھر غیب آجاتا ہے۔ یہی وہ پیچیدہ مسئلہ  ہے جس کو سائنس نہیں سلجھاسکی نہ سمجھ سکی ہے۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ نہ جاننے کے باوجود بھی انسان کا ذہن تجسس میں لگا رہتا ہے۔ اگر کسی ایک لمحہ کے لئے بھی انسانی ذہن مکان  (Space) کی گرفت سے آزاد ہو کر زمان (Time) کی حد میں داخل ہوجاتا ہے وہاں وہ حقیقت کو چھودیتا ہے اور حقیقت کو چھودینے کے معنی ہیں عمل۔ جیسے ہی اس کا ذہن زمان سے مکان کی طرف واپس آتا ہے تو وہ شے جس کو اس کے ذہن نے چھوڑدیا تھا عملی دنیا میں داخل ہوجاتی ہے یا تو فوری طور پر یا کچھ وقفہ کے بعد یا زیادہ وقفہ کے بعد۔

قانون کی دفعہ یہ ہوئی کہ ہر شہود کا غیب ہے اور غیب زمان (Time) کی گہرائی میں ہوتا ہے۔ ذہن مکان (Space) سے نکل کر اگر اسے چھوڑدے تو اس وقت جو کچھ ذہن میں ہوگا مکان میں آجائے گا اور مظہر بن جائے گا۔ چنانچہ بابر کے ذہن میں جیسے ہی یہ بات آئی کہ میری جگہ ہمایوں کو زندہ رہنا چاہئے، اس جذبہ کی گہرائی اتنی تھی کہ یہ مکان (Space) کی حدود سے نکل کر غیب یا زمان (Time) کے اندر پہنچ گیا۔ جیسے ہی واپسی ہوئی مظہر بن گیا۔ جذبہ کی گہرائی بہت زیادہ تھی اس لئے مظہر فوراً بن گیا۔

 

دعاگو

عظیمی

۲، فروری۱۹۷۷ء

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔