Topics
بڑی بڑی دوربینیں بھی استعمال کی گئیں، یہ دور کی چیزوں
کو قریب تو لے آتی ہیں لیکن طول موج کو بدل نہیں سکتیں۔ غیب میں ہزاروں بستیاں اور
ہزاروں چیزیں ہیں جن کو خلائی آبادیاں اور خلائی مخلوق کہہ سکتے ہیں، ان سے روشنی کے
جس طول موج کا صدور ہوتا ہے وہ طول موج ہماری
آنکھوں سے تو گزر ہی جاتا ہے لیکن دماغی سطح سے بھی گزر جاتا ہے کیونکہ دماغی سطح انہیں
روک نہیں سکتی، اپنے اندر جذب نہیں کرسکتی اس لئے ہم ان کو نہیں دیکھ سکتے۔
یہی صورت اس وقت عمل میں آتی ہے جب چاند اور سورج کے درمیان
زمین آجاتی ہے، زمین کا حائل ہونا روشنی کے کئی طول موج منتشر کردیتا ہے جو چاند کی
سطح پر منعکس نہیں ہوتے اور نہ چاند کی سطح سے ہماری آنکھوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ ہم
کئی لاکھ میل سے چاند کو اس لئے دیکھ لیتے ہیں کہ چاند میں کام کرنے والے روشنی کے
طول موج سے ہمارا شعور باخبر ہے اور خلائی آبادیوں کو اس لئے نہیں دیکھ سکتے کہ خلاء
میں کام کرنے والے طول موج ہمارے شعور کی گرفت سے باہر ہیں۔
یہ عجیب سربستہ راز ہے کہ کائنات میں ہر مخلوق کے ساتھ لاشعوری
طور پر ہم رشتہ ہے۔ لاشعوری تحریکات میں سے چند کو ہمارا شعور قبول کرلیتا ہے اور باقی
تحریکات کو رد کردیتا ہے۔ چاند سورج، کہکشاں، ستارے اور کائنات میں لاکھوں، کھربوں
موجودات کو شعور زیادہ تر محسوس کرتا ہے مگر جن موجودات سے شعور کے قیام کا براہ راست
تعلق ہے انہیں مظاہراتی خدوخال میں مشاہدہ کرتا ہے چونکہ چاند، سورج کی روشنی شعور
انسانی کے لئے ضروری ہے اس لئے وہ لاشعور سے اس طول موج کو قبول کرلیتا ہے۔
اگر اسی طرح وہ یعنی شعور انسانی لاشعور کی کائناتی تحریکات
کو بھی قبول کرلے تو انسان چاند، سورج اور ستاروں کی طرح تمام خلائی آبادیوں کا بھی
مشاہدہ کرسکتا ہے۔
دعاگو
عظیمی
۹، جون، ۱۹۶۹ء
KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI
۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی خط کو جواب دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔