Topics

نام۔نامعلوم

محترم مرشد کریم

اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

ایک شخص کسی کو بہت اچھا کہتا ہے پھر دو منٹ بعد اسی شخص کو بُرا کہتا ہے۔ اراہ کرم میرے اس سوال کی روحانی طور پر تشریح فرمادیں۔

(خط ارسال کنندہ نے اپنا نام اور پتہ تحریر نہیں کیا)۔

نام۔نامعلوم

 

          مرشد کریم رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ آدمی کی گفتگو میں مبالغہ بہت ہوتا ہے۔ یہ بشری کمزوری ہے اس پر کوئی آدمی عبور نہیں پا سکتا۔ اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی آدمی کو بُرا نہ کہو۔ اگر وہ برا ہے وہ جانے ، اللہ جانے ۔ اگر اچھائی میں مبالغہ ہوگا ، جزا نہیں ملے گی تو سزا بھی نہیں ملے گی۔ بہتر  طریقہ  یہی ہے کہ کوئی آدمی بُرا ہو، اچھا ہو، اسے اچھا سمجھے اگر وہ بُرا ہے تب بھی اسے اچھا کہو۔ ویسے یہ ہے مشکل کام، اس لئے کہ ایک آدمی ہے اس نے آپ کے ساتھ خلوص و محبت کے ساتھ اچھا سلوک کیا جس کی بنا پر آپ اسے اچھا سمجھنے لگے۔کچھ عرصہ بعد اس نے آپ کو پریشان کیا تو آپ اس کے خلاف ہو گئے،  بُرا بھلا کہنےلگے لیکن سوال یہ ہے کہ آپ نے اسے اچھا کیوں کہا تھا۔ ایک دفعہ  آپ اچھا کہہ چکے ہیں، اب آپ اسے بُرا نہ کہیں اس لئے کہ پہلے اچھا کہہ چکے ہیں۔

          قومیں ذاتوں اور قبیلوں سے بنتی ہیں۔ قوموں سے نوعیں بنتی ہیں۔ پہلے انفرادیت ہوتی ہے پھر انفرادیت سے قبیلے بنتے ہیں۔ ایک ذہن ،ایک طرزِ فکر کے بہت سارے افراد کے ایک جمع ہوجانے سے خاندان بنتا ہے۔ کئی چھوٹے خاندان ایک ہی طرزِ فکر کے جمع ہو جائیں اسے قبیلہ کہتےہیں۔ کئی قبیلے مختلف طرزِفکر کے ایک جگہ جمع ہو جائیں تو اسے قوم کہتے ہیں۔

          اور کئی مختلف نظریات کی قومیں ایک جگہ جمع ہو جائیں تو اسے نوع کہتے ہیں۔ یعنی فرد ہوگا تو خاندان اور کنبہ بنے گا۔  جب آپ نے اپنی طرزِفکر یعنی معاشرتی طرزِفکر یہ بنا لی کہ اپنی ذات سے کسی دوسری ذات کو تکلیف نہیں پہنچے گی ، کسی بھی فرد کو بُرا نہیں کہیں گے تو خاندان میں ایک باپ نے اصول بنا لیا۔ اب اس کی اولادیں ہیں، دس کی دس نہیں چھ تو اس کی طرزِفکر پر چلیں گی۔ مفہوم یہ ہے کہ آپ نے اچھائی کا ایک دروازہ کھول دیا۔ چھ نسلیں اچھی بنیں۔

          حضور قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا انفرادی سوچ بے کار ہے اجتماعی سوچ زندگی ہے۔ اجتماعی سوچ سے آدمی کشش ثقل (Gravity) کو توڑ سکتا ہے۔ انفرادی سوچ سے آدمی کشش ثقل کو نہیں توڑ سکتا اور جب آپ کشش ثقل کو نہیں توڑ سکتے تو ظاہر ہے کہ زمین میں قید ہیں۔ زمین سے نکلنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ پرندوں کی طرح اڑنے لگیں۔آدم اور کبوتر میں ایک فرق یہ ہے کہ کبوتر اڑتا ہے آدمی اڑتا نہیں۔ جتنا زیادہ اجتماعیت سے دور ہوگا وہ انفرادی خول میں بند ہوتا رہے گا اور جتنا آدمی اپنی اصل سے واقف ہوگا وہ انفرادی خول سے آزاد ہوگا۔

روحانیت تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ فرد انفرادیت سے

آزاد ہو جائے  اور ذہن کو اجتماعی بنا لے۔

          جب آپ اجتماعی ذہن بنا لیں گے تو ذہن لامحدود دائرے میں داخل ہو گیا۔ اب کوئی آدمی بُرا کہے گا توآپ کو بُرا نہیں لگے گا۔ بُرا محسوس کرنا انفرادی سوچ ہے۔ تعریف پر آدمی خوش ہوتا ہے انفرادی سوچ خوشامد کو پسند کرتی ہے۔اجتماعی سوچ میں خوشامد نہیں ہے۔ جب تک اخلاص نہ ہو اجتماعیت میں داخل نہیں ہوسکتے۔ اجتماعیت کے برعکس رُخ انفرادیت ہے۔ شعور محدود ہے۔

          انفرادیت کے اندر آپ مستقل خوشی حاصل کرنا چاہیں تو یہ ناممکن ہے۔ خوشی حاسل کرنی ہے تو خوشی اور غم دونوں سے گزرنا ہوگا۔ خوشی اور غم دونوں کیفیتیں محدود ہیں۔ خوشی کی بھی ایک حد ہے اور غم کی بھی۔ خوشی کا بھی وقت ہے غم کا بھی وقت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ خوشی کا وقت نہیں معلوم ہوتا، سالوں گزر جائیں تو لگتا ہے کہ ایک دن گزرا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ خوشی اور غم محدود کیفیت ہیں۔ اگر انفرادیت کے خول سے باہر نکل کر اجتماعیت کو قبول کر لیا جائے تو خوشی اور غم کی گرفت ٹوٹ جائے گی۔

 

ہر      خوشی     اک     وقفہ      تیاری      سامان    غم

ہر   سکوں   مہلت   برائے   امتحاں  و  اضطراب

دعاگو

عظیمی

۵ مئی ۱۹۹۷ء

مرکزی مراقبہ ہال، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔