Topics
السلام
علیکم ورحمتہ اللہ
گزشتہ
چار سالوں سے آپ کے مضامین، نظریہ رنگ و نور، مسائل کے حل کے علاوہ دیگر کتب یعنی روحانی
نماز، روحانی علاج، ٹیلی پیتھی سیکھئے کا مطالعہ کرچکا ہوں۔ آپ روحانی علوم کی باقاعدہ
اور مسلسل تشریح کرنے کے ساتھ ایسی ایسی باتیں بتاتے ہیں جو میری سمجھ سے بالالیکن
وہ رازو نیاز کی باتیں اور روحانی دنیا کی باتیں ہیں۔ اب تک میں جن روحانی حضرات سے
ملا ہوں وہ ان باتوں کے اظہار سے اجتناب کرتے ہیں۔ ان کا منع کرنا اور آپ کا اظہار
کرنا…… اس کی کوئی خاص وجہ ہوگی۔
آپ کے
بصیرت افروز مضامین سے جو تھوڑا بہت میں سمجھ سکا وہ یہ ہے کہ ہر شے کی بنیاد امر ہے،
جو روشنی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔روشنی……معین مقداریں ہیں، ان سے علم حاصل کرکے انسان
روح سے واقف ہوتا ہے اور زندگی کے مقصد کو پالیتا ہے۔ کتاب ”ٹیلی پیتھی سیکھئے“ میں
نمک اور مٹھاس پر طویل اور بصیرت افروز مضمون سے کافی معلومات حاصل ہوئی۔
رسول
اللہ ﷺ محسن انسانیت اور روحانیت کے سرچشمہ
ہیں اور آج یا بعد میں جو صاحبان اس راہ کے مسافر ہوں گے سب آپ ﷺ کے نقش قدم پر چل
رہے ہیں اور چلتے رہیں گے۔ آپ کو بخوبی علم ہے کہ حضور پاک ﷺ کو شہد کتنا پسند تھا۔
شفایابی کے بارے میں کس قدر ارشادات فرمائے ہیں۔ جاننا چاہتا ہوں کہ جب مٹھاس شعوری
قوتوں کو ترقی دیتی ہے اور نمک لاشعوری قوتوں کو تو پھرنبی کریم ﷺ کے ارشادات میں شہد
کے استعمال کی کیا حکمت ہے۔
شکریہ……
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ……
عزیز گرامی قدر!
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ
سید محمد عظیم برخیاقلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ، امام
سلسلہ عظیمیہ کے ارشاد کے مطابق ہمارے اسلاف اور بزرگوں نے ماورائی کیفیات کو چھپانے
کا اہتمام اس لئے کیا ہے کہ انسانی شعور کمزور اور ناتواں تھا۔ اب جب کہ سائنسی ایجادات
و ترقی نے شعور کو توانا کردیا ہے اور فہم و فراست عام ہوگئی ہے، اس لئے ابدال حق حضور
قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کی جانب سے اپنے نانا حضرت تاج الدین ناگپوری رحمتہ
اللہ کی اجازت سے روحانی علوم کو منظر عام پر لانے کی جدوجہد کی جارہی ہے۔
کتنی کامیابی ہوتی ہے، کب ہوتی ہے، یہ سوچنا ہمارا کام نہیں
ہے۔ ہمارا کام روحانی علوم کی ترویج کے لئے تن من دھن سے لگے رہنا ہے، صرف اللہ اور
اس کے محبوب ﷺ کی رضا اور خوشنودی کے لئے۔
نمک اور مٹھاس دونوں کی اہمیت ہے۔ مٹھاس کی قسمیں ہیں۔ مٹھاس
میں سب سے زیادہ لطیف، پاکیزہ مٹھاس شہد ہے۔ شہد ایسی مٹھاس ہے کہ جس سے شعور انسانی
کو اس طرح تقویت ملتی ہے کہ وہ لاشعوری واردات و کیفیات کو قبول کرنے میں تھکن محسوس
نہیں کرتا۔ اس کے برعکس دوسری مٹھاس مثلاً گڑ، چینی اور شوگر سے بنے ہوئے دیگر مرکبات
شعور پر بوجھ بنتے ہیں اور شعور، لاشعوری کیفیات کو قبول کرنے میں کمزوری محسوس کرتا
ہے۔
آپ غور کریں ہم جو کچھ کھاتے ہیں ان سب میں مٹھاس ہے۔ گیہوں،
چنا، باجرا، جوار، جو، پھل، دودھ، پانی، ترکاریاں …… مطلب یہ ہے کہ ہماری غذامیں اتنا
مٹھاس ہے کہ ہمیں اضافی مٹھاس کی ضرورت نہیں ہے۔
البتہ شہد چونکہ لطیف، پاکیزہ اور اللہ کے فرمان کے مطابق شفا
ہے، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے شہد کو پسند فرمایا اور اسے کھانے کا حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں
میں شہد کی مکھی پر وحی کرتا ہوں۔ سورہ النحل
شہد میں وحی کی نورانیت موجود ہے۔
دعاگو
خواجہ شمس الدین عظیمی
جون ۱۹۹۳ء
مرکزی مراقبہ ہال، کراچی
KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI
۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی خط کو جواب دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔