Topics

عزیزی نجم الدین

سوچ کی دو طرزیں ہیں۔

۱۔ زندہ رہنے کے لئے ماحول سے متاثر ہو کر ہم خود کو وسائل میں قید کرلیتے ہیں۔ آسائش و آرام اور روٹی کپڑے کے علاوہ دوسری کوئی شے ہمارے لئے اہمیت نہیں رکھتی اور یہ عمل ہماری زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔

۲۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ مادی دنیا میں ہم نے کیا ھویا، کیا پایا ہے۔

دنیا میں عزت و جاہ کا خوشنما لباس زیب تن کرنے کے لئے ہم دولت جمع کرتے ہیں۔ اس دولت کی تشہیر کے لئے عالی شان محلات بناتے ہیں۔ گھروں کو اس طرح سجاتے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر احساس کمتری میں مبتلا ہوجائیں۔ قرض لے کر قیمتی کاریں خریدتے ہیں۔ دولت سے عزت و توقیر کا حصول خودفریبی ہے۔ ایسی خودفریبی جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ فراعین مصر کے مقبرے، شداد و نمرود کے محلات اور قارون کے زمین میں دفن خزانے ہمیں بتارہے ہیں کہ دولت نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی۔ تاریخ خود کو دہراتی رہتی ہے اور ہر زمانے میں دولت کی حقیقت کو ہمارے اوپر آشکار کرتی رہتی ہے۔ بڑے بڑے شہنشاہوں کا ماضی ہمارے لئے آئینہ ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ شان و شوکت اور شاہی دبدبہ کے حامل بادشاہوں کو مادر وطن میں قبر بھی نصیب نہیں ہوئی۔ سب واقف ہیں کہ سونے چاندی کے ذخیروں اور جواہرات نے کسی کے ساتھ وفا نہیں کی۔ مٹی نہ صرف یہ کہ خود کو پہچانتی ہے بلکہ ایک ایک ذرہ کو اپنی کوکھ سے جنم دیتی ہے۔

مٹی کو اگر ایک فرد مان لیا جائے تو ہر شے مٹی ہے۔ یہ بات کون نہیں جانتا کہ آدمی چاہے تو پچاس کمروں کا مکان بنالے لیکن سوئے گا وہ ایک چارپائی کی جگہ…… چاہے تو ہوس زر میں سونے چاندی (مٹی کے ذرات) سے خزانے بھرلے لیکن پیٹ دو روٹی سے بھرجاتا ہے۔ ماحول کو مصنوعی روشنیوں اور خوشبوؤں سے کتنا ہی معطر کرلیا جائے آدمی کے اندر کی سڑاند کا نعم البدل نہیں ہوتا۔ زمین کی فطرت ہے کہ وہ اپنی اولاد کو صاف ستھرا دیکھنا چاہتی ہے اور صاف ستھرا رکھتی ہے اور جب اولاد تعفن سے نہیں نکلنا چاہتی تو وہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتی ہے اور اس کے ادبار کی وجہ سے آدمی گھناؤنا اور ناسور زدہ ہوجاتا ہے۔ بلاشبہ کسی آدمی کے لئے اس سے بڑا اور دردناک عذاب کوئی نہیں۔

اور وہ لوگ جو سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کے لئے خرچ نہیں کرتے، ان کے لئے عذاب الیم کی بشارت ہے۔ قرآن

صدیوں سے زمین پر ہونے والی تبدیلیاں اس بات کی شہادت فراہم کرتی ہیں کہ زندگی کے ادوار، زمانہ کے نشیب و فراز اور سائنسی ایجادات زمین کے سینہ میں محفوظ ہیں۔ زمین یہ بھی جانتی ہے کہ کتنی تہذیبوں نے اس کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور پھر یہ تہذیبیں زمین دوز ہو کر صفحہ ہستی سے غائب ہوگئیں۔ خلا کے پاس آسمان کی وسعتوں میں جھانک کر دیکھا جائے تو مایوسیوں، ناکامیوں اور ذہنی افلاس کے علاوہ ہمیں کچھ نظر نہیں آتا۔ یوں لگتا ہے کہ زمین کے باسیوں کا اپنی ذات سے فرار اور منفی طرز عمل دیکھ کر نیلے پربت پر جھلمل کرتے ستاروں کی شمع امید کی لو مدھم پڑگئی ہے۔ وہ آدمی جو اشرف المخلوقات ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ ذہنی اعتبار سے حیوانات سے بدتر زندگی گزار رہا ہے۔ فی الوقت جو سکون بلی اور بکری کو حاصل ہے اس کا عشر عشیر بھی آدمی کو میسر نہیں ہے۔

تخلیق کرنے والوں میں بہترین تخلیق کرنے والی ہستی، خودمختار خالق نے اس دھرتی کو ایک قطعہ زراعت بنا کر آدم کے حوالے کیا ہے کہ وہ اس کے سینہ پر سر رکھ کر میٹھی نیند سوسکے۔ اسی لئے اس کی تخلیق کا ظاہری جسم مٹی سے بنایا گیا اور اس کے استعمال کی ہر چیز مٹی سے بنائی گئی ہے۔ زمین کو قدرت نے اتنا سخت نہیں بنایا کہ آدم زاد اس پر چل نہ سکے، اتنا نرم نہیں بنایا کہ آدم زاد کے پیر زمین میں دھنس جائیں۔ اسے اختیار دیا گیا ہے کہ وہ زمین پر تصرف کرسکے اورز مین کے جسم میں دوڑنے والے خون  (Rays) سے جس طرح چاہے استفادہ کرے۔ لاکھوں کروڑوں سال پہلے کے آدم کی طرح آج بھی آدم زاد زمین کے سینہ پر کھیتی باڑی کرنے میں مصروف عمل ہے۔ اس کھیتی کا ہر جزو بھی آدم کی طرح مٹی ہے۔ جو کچھ بوتا ہے اس کا بیج بھی مٹی ہے۔ پودا بھی مٹی کی بدلی ایک شکل ہے۔ درخت بھی مٹی کے اجزاء سے مرکب ہے اور ہر پرشکوہ عمارت بھی مٹی ہے۔ بڑی بڑی ایجادات کا مصالحہ  (Raw Material) بھی مٹی ہے۔ آدمی جس طرح سے سبز درخت اور ہرے بھرے لہلہاتے کھیت اگاتا ہے اسی طرح بلند و بالا عمارتیں، دیوہیکل جہاز اور دیگر اشیاء بھی مٹی سے بنی ہوئی ہیں۔

آدمی مٹی ہوتا ہے اور مٹی سے یہ نتائج حاصل کرتا ہے۔ بوائی اور کٹائی کا یہ عمل متواتر اور مسلسل جاری ہے کیونکہ آدمی زمین پر ایک فعال رکن ہے اور قدرت نے اسے ارادے کا اختیار دیا ہے۔ عمل اور ردعمل، حرکت اور نتائج کے اس قانون کو نبی مکرم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔

دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔

موجودہ پرُآشوب دور میں قول و فعل میں تضاد کا عالم یہ ہے کہ ہر آدمی جانتا اور کہتا ہے کہ زمین پر وقفہ زندگی محدود ہے لیکن اس کا عمل اس کے روزمرہ مشاہدہ کے خلاف ہے۔

وہ پوری زندگی ان خطوط پر گزارتا ہے جو قانون فطرت کے خلاف ہے۔ تخریب کا نام اس نے ترقی رکھ دیا ہے۔ دانشور انسان فلاح و بہبود کے طلسمی نام پر مستقبل کی ناخوش گواریوں کو جنم دیتا ہے۔ روشن نگاہی کا دعویٰ کرکے جو کچھ کرتا ہے وہ کوتاہ اندیشی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

سبحان اللہ کی خوب منظر نگاری ہے ایٹم بم کو ترقی کا نام دے کر انسان کی اعلیٰ صلاحیتوں کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے۔ یہ کوئی نہیں سوچتا فلاح و بہبود کے دعویداروں نے ایک ایٹم بم کو لاکھوں قیمتی جانوں پر فضیلت بخش دی ہے۔ انسان قدرت کی دی ہوئی صلاحیتوں کا امین ہے لیکن اس نے ان صلاحیتوں کو حرص و ہوس، خودغرضی، اناپرستی اور خودنمائی جیسے جذبات کی تسکین کے لئے اپنی ذات تک محدود کردیا ہے لیکن اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتا کہ فانی دنیا کے اعمال بھی فانی ہیں۔ اگر اعمال میں تعمیر ہے تو اعمال یہاں اور آخرت میں جزا ہیں اور اگر اعمال میں تخریب ہے تو اس دنیا اور آخرت کی دنیا میں سزا ہے۔ جب وہ دنیا میں تخریب بوتا ہے تو تخریب ہی  کاٹتا ہے۔

 

دعاگو

عظیمی

۱۳ مئی، ۱۹۸۱ء

1-D-1/7، ناظم آباد، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔