Topics

آصف کامران (کینیڈا)

السلام علیکم

حدیث قدسی میں مومن کے بارے میں آیا ہے کہ اللہ فرماتے ہیں:

میں مومن کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ چیزیں پکڑتا ہے، میں وہ آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، میں وہ سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، میں وہ ذہن بن جاتا ہوں جس سے وہ سوچتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ مومن کی جن صفات اک ذکر کیا گیا وہ ساری مخلوق میں پائی جاتی ہیں یعنی سماعت، سوچ وغیرہ تو پھر ایک عام آدمی اور مومن میں کیا فرق ہے…… شکریہ

آصف کامران (کینیڈا)

 

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ

یہ آپ نے بڑا عجیب سوال کیا ہے۔ اگر آپ تھوڑا غور کرتے تو یہ سوال دوسری طرح ہوتا۔ آپ کا سوال یہ ہوا کہ میٹرک کرنے والے اور Ph.D میں کیا فرق ہے……حالانکہ میٹرک کرنے والا بندہ بھی روٹی کھاتا ہے، سوتا ہے، جاگتا ہے، عقل کی باتیں کرتا ہے، کاروبار کرتا ہے، اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کو پہچانتا ہے اور علم بھی رکھتا ہے…… لیکن ایک Ph.D میں، ایک گریجویٹ اور میٹریکولیٹ میں بہت فرق ہے۔

ان سب میں فرق علم کا ہے۔ جتنا علم ہوگا اسی مناسبت سے کسی بھی شخص کا دماغ اور ذہن روشن ہوجائے گا۔ یہی فرق عام آدمی اور مومن میں ہے۔ مومن اور عام آدمی کے فرق کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

یہ بدوی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔

ان سے کہو تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مسلمان ہوگئے۔ ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ اگر تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی فرماں برداری اختیار کرلو تو وہ تمہارے اعمال کے اجر میں کوئی کمی نہ کرے گا۔ یقینا اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔ حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لائے پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں۔ الحجرات: ۱۴۔۱۰

اللہ فرماتے ہیں

اور تم نے نہیں پھینکی مٹھی خاک کی جس وقت کہ پھینکی تھی لیکن اللہ نے پھینکی۔ الانفال: ۱۷

 

قرآن کریم تخلیقی فارمولوں کی دستاویز ہے۔ تخلیقی فارمولے وہ علوم ہیں جن کی بنیاد پر آدم نے اپنا نائب بنایا۔ جب تک نوع آدم قرآن کریم میں موجود تخلیقی فارمولوں کا علم حاصل نہیں کرے گی۔ وہ مخلوقات میں اشرف نہیں بلکہ اسفل سافلین میں ہے۔ اللہ فرماتے ہیں۔

الف، لام، میم۔یہ وہ کتاب ہے جس میں شک نہیں۔ ہدایت ہے متقیوں کے لئے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ صلوٰۃ قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان (یقین) لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔ البقرۃ۔ ۱۔۵

مومن کے بارے میں حضور پا ک ﷺ کا ارشاد ہے

مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔

عام آدمی اور مومن میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مومن کو اللہ کی طرف سے ایسی نظر عطا ہوجاتی ہے کہ نور سامنے آجاتا ہے اور وہ جو کچھ دیکھتا ہے…… انوار و تجلیات کی روشنی میں دیکھتا ہے۔

اللہ بتارہے ہیں کہ مومن کوئی چیز سنتا ہے تو وہ میری معرفت سنتا ہے…… وہ دیکھتا ہے تو میری معرفت دیکھتا ہے۔ کہیں جاتا ہے تو میری معرفت پیروں سے چل کر جاتا ہے یعنی جو کام بھی کرتا ہے میری خوشنودی کے لئے کرتا ہے۔ کسی بات کو بیان کرنے کا بھی ایک طریقہ ہے۔ اللہ آنکھ بن جاتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ اسے اللہ ایسی بصیرت عطا کردیتا ہے کہ وہ جو کچھ دیکھتا ہے اس دیکھنے میں اللہ کی مشیت ہوتی ہے اور وہ کوئی ایسی چیز نہیں دیکھتا کہ جس چیز کے دیکھنے میں اللہ ناخوش ہوتے ہیں۔ وہ کسی ایسے راستہ پر قدم نہیں بڑھاتا کہ جس پر قدم بڑھانے سے اللہ تعالیٰ ناخوش ہوتے ہیں۔ وہ کوئی ایسی چیز ہاتھ میں نہیں پکڑتا جسے اللہ نے ناپسند کیا ہے۔ مثلاً ایک آدمی سودی کاروبار کرتا ہے، سودی کاروبار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب رقم آئے گی تو آدمی ہاتھ سے ہی پکڑے گا۔

ایک آدمی شراب خانہ کی طرف چلتا ہے، ایک آدمی مسجد کی طرف چلتا ہے، وہ اگر شراب خانہ کی طرف چل رہا ہے تو اللہ ناخوش ہے اور اگر وہی آدمی مسجد کی طرف جارہا ہے تو اللہ خوش ہے…… ایک آدمی شراب خانہ کے بجائے مسجد کی طرف یا مکہ کی طرف یا مدینہ کی طرف سفر کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا سارا چلنا اللہ کا چلنا ہوا، اس لئے کہ اس نے اللہ کی خوشنودی کے لئے قدم اٹھایا ہے۔

یہی ”ذہن“ ہے۔ مومن جب سوچتا ہے تو اس کی سوچ میں رحمانیت ہوتی ہے، شیطنیت نہیں۔ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ وہ بندہ جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ ہاتھ بن جاتا ہوں، کان بن جاتا ہوں، وہ بندہ ہے جو مکمل اللہ کی رضا پر راضی رہتا ہے۔ حضور پاک ؓ کا ارشاد ہے کہ

اللہ کے بندے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ جب اللہ کے بھروسے پر کوئی بات کہہ دیتے ہیں تو اللہ اپنے اوپر لازم کرلیتا ہے اور وہ بات پوری ہوجاتی ہے۔

 

دعاگو

عظیمی

اگست ۱۹۹۳ء

مرکزی مراقبہ ہال، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔