Topics

نام۔نامعلوم

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ

آپ نے قبرستان میں دیکھا ہوگا کہ جب قبر تختوں سے بند کردی جاتی ہے تو میت کے ساتھ جانے والے سوگوار ہاتھوں میں مٹی لے کر قبر کے اندر ڈالتے ہین۔ مذہب کا کوئی عمل لا یعنی اور ذائد نہیں ہوسکتا۔ مٹی ڈالتے وقت جو آیت تلاوت کی جاتی ہے وہ بھی اپنے مفہوم کے اعتبار سے انتہائی توجہ طلب ہے۔

انسان تین پرت کا مجموعہ ہے، ہر پرت متعین صفات رکھتا ہے۔ ہم ان پرتوں میں سے ایک پرت کو ہمزاد، ہیولیٰ، ایتھر، جسم مثالی اور نسمہ کہتے ہیں۔ جس وقت گوشت پوست کے آدمی کو قبر کے اندر اتارا جاتا ہے اس وقت نسمہ بھی اس کے ساتھ چپکا ہوا ہوتا ہے اور چونکہ وہ باشعور، با صلاحیت اور با اختیار ہوتا ہے اس وجہ سے فرشتے ایک خاص انتظام کے تحت اس بات کی نگرانی کرتے ہیں کہ نسمہ راہ فرار اختیار نہ کرے۔ بعض نسمہ اتنے چالاک ہوتے ہیں کہ وہ فرشتوں کو چکمہ دے کر اعراف کی حد بندی سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ اس عمل سے ان کی کوئی جائے قیام متعین نہیں ہوتی اور وہ آوارہ در بدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ طبیعت میں شرارت کی وجہ سے لوگوں کو پریشان اور ہراساں کر کے خوش ہوتے ہیں۔

ان کو ہمیشہ ایسے لوگوں کی تلاش رہتی ہے جو دماغی اعتبار سے کمزور ہیں ۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ اس آدمی کے نسمہ میں قوت مدافعت نہ ہونے کے برابرا ہے تو یہ ان کو اپنا معمول بنا لیتے ہیں۔ دماغی عارضہ(مالیخولیا وغیرہ) بھی نسمہ میں قوت مدافعت نہ ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں لیکن ان بیماریوں کا سایہ، آسیب سے کوئی تعلق نہیں۔

عرض یہ کرنا ہے نوع انسانی نے نادیدہ مخلوق جنات کو بدنام کرنے کے لئے یہ ڈھونگ رچایا ہے کہ آدمی کے اوپر جن سوار ہو جاتا ہے، آدمی کے اوپر جن نہیں بلکہ خود آدمی (بھٹکا ہوا نسمہ) سوار ہوتا ہے۔ نوع اجنہ کے حق میں آدمی کی یہ بہت بڑی زیادتی اور ظلم ہے کہ بغیر تحقیق کے پوری نوع کے اوپر بہتان تراشی کی جائے۔

میں نوع اجنہ سے واقفیت کی بناء پر یہ بات یقین کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ جنا ت ہم انسانوں سے زیادہ سنجیدہ ، رحم دل ، ہمدرد، ایثار پیشہ اور غم خوار ہوتے ہی۔ جنات کے بارے میں اس قسم کی جتنی کہانیاں مشہور ہیں ان کے راوی، ایسے آدمی ہیں جو احساس کمتری یا دنیا طلبی میں مبتلا ہیں، ہوتا یہ ہے کہ جب ہم کسی مسئلہ کو حل نہیں کر سکتے  تو اس کے لئے قیاس کو استعمال کر کے غلط فیصلہ صادر کر دیتے ہیں۔

 

دعاگو

 عظیمی

 اگست ۱۹۹۰

مرکزی مراقبہ ہال، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔