Khuwaab aur Taabeer

خانوادہ سلسلۂ عظیمیہ محترم خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی دختر ِنیک اختر کا خط

خانوادہ سلسلۂ عظیمیہ محترم  خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی دختر ِنیک اختر  کا  یہ خط ماہ ِ اکتوبر کی مناسبت سے ’’ماہنامہ قلندر شعور‘‘کے قارئین کے ذوق کی نذر ہے۔ 


پیا رے ابا جی السلا م   علیکم ورحمۃ اللہ ،

  رب العالمین اللہ   کی ڈھیر سا ری عنا یتیں اور رحمتیں آپ کے  اوپر مزید ہوں ۔

مجھے یقین ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے اس لئے کہ آپ ہم سب کے لئے ابرِ رحمت اور سایۂ شفقت  ہیں، ہماری آنکھوں کی روشنی اور ہما رے دل کا قرار ہیں۔ اتنے سارے لوگوں کی آنکھوں کی روشنی بھلا کیسے مدہم ہوسکتی ہے۔ اتنے سارے لوگوں کا سکون ، بے قرار ہوجائے تو لوگ خو ف اورغم سے نڈھال ہوجا ئیں گے اور اللہ یہ نہیں چاہتا  کہ اس کی مخلو ق خو ف اور غم میں مبتلا ہو کر زندگی گزارے ۔

  ابا جی آپ میرے با پ ہیں لیکن ایک اور رشتہ یہ ہے کہ میں آپ کی روح کا ایک حصہ ہوں ، آپ کے اندر نورانی وجو د کا پر ت ہوں۔

  اللہ آسما نوں اور زمین کا نور ہے اور سار ی روشنی اللہ کے نو ر کا عکس ہے۔

 آپ کی بیٹی میںآپ کی روشنی کا عکس ہوں۔

چا رمہینے پاکستان میں رہنے کے بعد زندگی کی روٹین بالکل بدل گئی تھی۔ یہاں (برطانیہ)پہنچ  کر وقت مختلف لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے  کہ زندگی جن لمحا ت پر رواں دواں  ہے،  ان میں سکوت پیدا ہوگیا ہے۔  کیفیا ت میں وقت ٹھہرگیا ہے ۔ رات کو دس بجے مغر ب ہو تی ہے۔ 

صبح پتہ نہیں کب ہو تی ہے ۔ یہا ں تو مرغا بانگ بھی نہیں دیتا۔

  آپ نے دوران ِ تعلیم مجھے بتا یا تھا ………

’’ہم آئینے  کو نہیں،  آئینہ ہمیں دیکھ رہا ہے ۔ ہم آئینے  کے دیکھنے کو دیکھ رہے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہو ا کہ آئینے کے دکھا نے میں گڑ بڑ ا ورنقص ہے، آئینہ ٹھیک ہو نا چاہئے۔

  میں نے  آپ سے کہا تھا ،  اگر آئینے کو دیکھنے کے بعد وہم ہو تا ہے یا وسوسہ دل میں داخل ہو تا ہے   تو آئینے  کوتوڑدوں ؟

  آپ لیٹے لیٹے اٹھ کر بیٹھ گئے اور کہا نہیں، نہیں!  آئینہ کیوں توڑدیں؟  آئینہ ٹوٹ جائے گا توزندگی بکھر جائے گی۔ آئینے کو اس یقین کے ساتھ دیکھو کہ تمہا ری تصویر تمہیں توازن  میں نظر آجا ئے۔

  میں نے یہا ں (برطانیہ) آکر تجر بہ کیا اور سوچ لیا کہ میں ایک متوازن لڑکی ہوں۔

  لیکن آئینے کے سامنے جا کر اپ سیٹ ہو گئی۔

  ابا جی !                    مجھے یقین چا ہئے ۔  ایسا یقین جس کی روشنی میں مجھے ہرچیز روشن نظر آئے۔

میں دبے قدموں  (کہ آپ بے آرام نہ ہوں) او پر کی منزل میں، آپ کے  کمرے میں،  آپ کو دیکھنے گئی تھی۔ رات کا فی گزرچکی تھی۔ آپ سو رہے تھے۔  پتہ  نہیں کیسے آپ نے کروٹ بد لے بغیر کہا ، کون ؟  ہمابیٹی ہے—؟

میں نے اپنی بھیگی آنکھوں کی پلکوں سے آپ کے تلووں  کو چھوا۔آپ اٹھ بیٹھے اور میرے سر پر ہاتھ رکھا  مجھے لگا کہ میرا وجود مرکر ی روشنی میں منتقل  ہوگیا ہے ۔

  آپ نے بتایا،  اگر نسمہ (اندر میں) میں خراشیں پڑجا ئیں توجسم غیر متوازن ہوجا تا ہے۔ نسمہ کی مفر د لکیروں کو متوازن کر دیا جا ئے  توجسم متوازن اور صحت مند ہو جاتا ہے۔

میں گھنٹوں سوچتی رہی کہ یہ نسمہ کی مرکب اور مفرد لکیروں کا کیوں اور کیسے تذکر ہ آگیا ۔

  مجھے اس کا جواب یہا ں   آکر مل گیا ہے۔ ہر فرد و بشرکو دو طر ح کے خیالات آتے ہیں۔ متوازن اور غیرمتوازن خیالات۔  میرے ذہن میں یہ خیا ل القا  ہو اکہ لکیروں کومتوازن کرنے کے لئے  لہروں اور شعاعوں کاسہا را لینا چا ہئے  ۔

  ابا جی !  میں نے لیمپ کے اوپر نیلے رنگ کا سیلوفین پیپر لگا کر منہ میں شعا عیں ڈالنے کا عمل شروع کیا  لہروں اور شعا عوں کو گھونٹ گھونٹ   پی گئی۔  اس عمل سے میر ے اندر یقین فوارہ بن کر ابل پڑا۔  مجھے یا د آیا آپ نے کہا تھا……… یقین سے پہاڑ بھی نہ صرف ہل جا تے ہیں بلکہ ریزہ ریزہ ہو جا تے ہیں۔  میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ یقین کر نے سے میرے وجود میں بشری تقا ضو ں کے تحت جو کمزوریاں ہیں،  کیا وہ دور ہو جائیں گی؟

  آپ نے کہا تھا ……… ہاں ،        دور ہو جائیں گی۔

   روشنیوں کو inhale  کر نے سے ایک مضمون ذہن میں آیا ہے۔

  قرآن بتاتا ہے :    انسا ن کی تخلیق روشنیوں کی وہ معین مقداریں  ہیں جو جسما نی ساخت کو ایک خا ص حر کت اور   process کے تحت خصو صی اعداد و شما ر سے قا ئم رکھتی ہیں ۔ جسمانی اعضا   دراصل لاکھوں، کروڑوں خلیا ت کا ایسا وجودی عمل ہے جیسے ہما رے منہ میں بتیس (32) دانت ہیں ۔ ہر اس شخص کے منہ میں جس کے 32 دانت ہیں،  ایک ہی طر ح کی حرکت ہو گی۔  32      ایک مرکب        ہندسہ ہے  جو      2       اور       3        سے مل کر بنا ہے ۔

  دو کا نصف ایک ہے یعنی آخری عدد ایک ہوا ۔   2 = 1 +1

دراصل ایک ہی کا         ہندسہ یا عدد ہے جو اپنے اندر بے شما ر ہندسوں کو تخلیق کر رہا ہے۔

 ایک کا  ہندسہ ایک لکیر ہے اس لکیر کی آڑی ترچھی شکلیں ہی دوسرے اعداد یا ہندسے کی شکل ہیں۔   لکیر کے جتنے زاویے بنتے رہیں گے، اعداد بھی بنتے رہیں گے۔  لکیر کو اگر لہر تسلیم کر لیا جا ئے جیسے کہ لکیر لہر ہے تو با ت سمجھ میں آجا تی ہے۔  لہروں کی تقسیم  اگر درست ہے اور لہروں میں مقداریں متوازن ہیں تو آدم زاد متوازن ، صحت مند اور خوب رو ہے۔  لہروں میں مقداریں متوازن نہیں تو آدمی غیر متوازن ، بیما ر اور        بد صورت ہے ۔

آپ نے کہا تھا………

 ’’ نسمہ کی مفر د لکیروں کو متوازن کردیا جا ئے تو جسم متوازن اور صحت مند ہو جا تا ہے ۔‘‘

  ابا جی      آپ نے چند جملوں میں علم کا دریا بہا دیا ہے۔  میں نے آپ کی بات پر جب اور  غور کیا تو یہ عقد ہ کھلا کہ ہر انسان اپنے آپ کو اپنے چہرے کی مناسبت سے دیکھتا ہے۔  جب                وہ چہرے میں توازن نہیں پا تا تو عدم توازن کا شکا ر ہو جاتا ہے ۔

 چہرے کے توازن کو درست رکھنا    کو ئی مشکل مر حلہ نہیں۔

آپ نے بتایا تھا کہ بتیس (32 ) ایسی تصویریں جو آپ کو ہر لحا ظ سے خوش شکل نظر آئیں،  جمع کرلیں لیکن سب تصویریں ہنستی ہوئی ہونی چا ہئیں۔  ان 32 تصویروں کو دن رات میں دو، تین اورپا نچ مرتبہ دیکھ لیا کریں ۔

 میں نے مشا ہدا تی تجر بہ کیا ہے کہ اس عمل سے نسمہ کی لکیروں اور زندگی بخشنے والی لہروں میں توازن  پیدا ہوجاتا ہے ،  اپنے اندر یقین کی روشنیا ں بیدا ر اورمتحرک ہوجا تی ہیں۔

 آخر میں  دعا ہے  کہ  اللہ تعالیٰ ہر عظیمی بہن بھا ئی اور ہر فرد  کو ہمیشہ مسکراتا رکھے،  آمین۔

پیا رے ابا جی !   صلبی رشتے  سے آپ کی شفقت،  آپ کی دعاؤں اور روحا نی رشتے  سے آپ کی نظرِ  کرم کی محتا ج ہوں ۔

                                                                                                                                 آپ  کی بیٹی

                                                                                                                ہما         فاران عظیمی،  برطانیہ 

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔