Topics
ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا دربار پورے جاہ و حشم کے ساتھ منعقد تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہدہد کو غیر حاضر دیکھ کر فرمایا:
’’میں ہد ہد کو موجود نہیں پاتا کیا وہ واقعی غیر حاضر ہے؟ اگر اس کی غیر حاضری بے وجہ ہے تو میں اس کو سخت سزا دونگا یا ذبح کر ڈالوں گا یا پھر وہ اپنی غیر حاضری کی کوئی معقول وجہ بتائے۔‘‘
ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ ہد ہد حاضر ہو گیا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی باز پرس پر اس نے کہا:
’’میں ایک ایسی خبر لایا ہوں جس کی اطلاع آپ کو نہیں ہے وہ یہ ہے کہ یمن کے علاقہ میں سبا کی ملکہ رہتی ہے اور خدا نے اسے سب کچھ دے رکھا ہے اس کی تخت سلطنت اپنی فوجوں کے اعتبار سے عظیم الشان ہے، ملکہ اور اس کی قوم آفتاب پرست ہیں، شیطان نے انہیں گمراہ کر دیا ہے اور وہ اللہ وحدہ لاشریک کی پرستش نہیں کرتے۔‘‘
سبا کا دارالخلافہ قارب تھا اس علاقہ کے لوگ چشموں پر بند باندھ کر آب پاشی کیلئے استعمال کرتے تھے، دارالحکومت میں سب سے بڑا بند ’’سدقارب‘‘ کے نام سے مشہور تھا، جس کے دونوں طرف پھلوں اور خوشبو دار پھولوں کے سرسبز و شاداب باغات تھے۔ اہل سبا کی نافرمانیاں جب بڑھ گئیں تو ان پر عذاب آیا سد قارب ٹوٹ گیا ، بستیاں اجڑ گئیں باغات ویران ہو گئے اور اہل سبا منتشر ہو گئے، سبا کی قوم تجارت پیشہ اور مالدار قوم تھی، سبا والے مشرک اور بت پرست تھے، سورج کو سب سے بڑا دیوتا مانتے تھے۔
ہد ہد نے اپنی غیر حاضری کی وجہ بیان کی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا:
’’تیرے سچ اور جھوٹ کا امتحان ابھی ہو جائے گا، اگر تو سچا ہے تو میرا یہ خط لے جا اور اس کو سبا والوں تک پہنچا دے اور انتظار کر کہ وہ اس کے متعلق کیا گفتگو کرتے ہیں۔‘‘
ہد ہد جب خط لے کر پہنچا تو ملکہ سبا آفتاب پرستی کے لئے جا رہی تھی۔ ہد ہد نے راستہ ہی میں یہ خط ملکہ سبا کے سامنے ڈال دیا، ملکہ نے اٹھا کر خط پڑھا اور درباریوں سے کہا ابھی میرے پاس ایک مکتوب آیا ہے جس میں درج ہے:
’’یہ خط سلیمان کی جانب سے ہے اور اللہ کے نام سے شروع ہے جو بڑا مہربان اور رحم والا ہے تم کو ہم سے سرکشی اور سربلندی کا اظہار نہ کرنا چاہئے اور تم میرے پاس اللہ کی فرمانبردار بن کر آؤ۔‘‘
ملکہ سبا نے خط کی عبارت پڑھ کر کہا:
’’اے میرا اراکین سلطنت! تم جانتے ہو کہ میں سلطنت کے اہم امور میں تمہارے مشورہ کے بغیر اقدام نہیں کرتی اس لئے اب تم مشورہ دو کہ مجھے کیا کرنا چاہئے؟‘‘
اراکین حکومت نے عرض کیا۔
’’جہاں تک مرعوب ہونے کا تعلق ہے اس کی قطعاً ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم زبردست طاقت اور جنگی قوت کے مالک ہیں، رہا مشورہ کا معاملہ تو آپ جو چاہیں فیصلہ کریں ہم آپ کے فرمانبردار ہیں۔‘‘
ملکہ سبا نے کہا:
’’جس عجیب طریقہ سے سلیمان کا پیغام ہم تک پہنچا ہے وہ ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ سلیمان کے معاملے میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہئے، میرا ارادہ ہے کہ چند قاصد روانہ کر دوں اور سلیمان کے لئے عمدہ اور بیش قیمت تحائف لے جائیں۔‘‘
ملکہ سبا کے قاصد تحائف لے کر حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا:
’’تم اپنے تحائف واپس لے جاؤ اور اپنی ملکہ سے کہو کہ اگر اس نے میرے پیغام کو قبول نہیں کیا تو میں عظیم الشان لشکر کے ساتھ سبا والوں تک پہنچوں گا اور تم اس کی مدافعت اور مقابلہ سے عاجز رہو گے۔‘‘
قاصد نے واپس آ کر ملکہ سبا کے سامنے صورتحال بیان کر دی اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی عظمت و شوکت کا جو منظر دیکھا تھا حرف بہ حرف کہہ سنایا اور بتایا کہ ان کی حکومت صرف انسانوں پر ہی نہیں بلکہ جنات اور حیوانات بھی ان کے تابع اور فرمانبردار ہیں۔ ملکہ نے احوال سن کے طے کر لیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے فرمانبردار بن کر حاضر ہو، چنانچہ وہ سفر پر روانہ ہو گئی۔
ٹائم اسپیس فارمولا
حضرت سلیمان علیہ السلام کو معلوم ہو گیا کہ ملکہ سبا حاضر خدمت ہو رہی ہے۔ آپ نے اپنے درباریوں کو مخاطب کر کے کہا۔
’’میں چاہتا ہوں کہ ملکہ سبا کے یہاں پہنچنے سے پہلے اس کا شاہی تخت اس دربار میں موجود ہو۔‘‘
ایک عفریت نے جو جنات میں سے تھا کہا،
’’اس سے پہلے کہ آپ دربار برخاست کریں میں تخت لا سکتا ہوں۔ جن کا دعویٰ سن کر ایک انسان (تاریخ میں اس صاحب علم الکتاب کا نام آصف بن برخیا بتایا گیا ہے) نے کہا:
’’اس سے پہلے کہ آپ کی پلک جھپکے میں ملکہ کا شاہی تخت آپ کی خدمت میں پیش کر سکتا ہوں میرے پاس اللہ کی کتاب کا علم ہے۔‘‘
حضرت سلیمان علیہ السلام کی پلک جھپکی تو دیکھا کہ دربار میں ملکہ سبا کا تخت موجود ہے، شاہی دربار میں رکھے ہوئے تخت میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے تبدیلی کرنے کا حکم صادر فرمایا حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ:
’’میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ ملکہ سبا یہ دیکھ کر حقیقت کی راہ پاتی ہے یا نہیں۔‘‘
جب ملکہ سبا حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں باریاب ہوئی تو اس سے پوچھا گیا کہ تیرا تخت ایسا ہی ہے؟ ملکہ سبا نے جواب دیا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہی ہے، ملکہ سبا نے اس کے ساتھ ہی کہا:
’’مجھ کو آپ کی بے نظیر اور عدیم المثال قوت کا پہلے سے علم ہو چکا ہے اس لئے میں مطیع اور فرمانبردار بن کر حاضر ہوئی ہوں اور اب تخت کا یہ محیر العقول معاملہ تو آپ کی لاثانی طاقت کا مظاہرہ ہے اور ہماری اطاعت کے لئے تازیانہ اس لئے ہم آپ سے فرمانبرداری کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘
جنات انجینئر
حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات اور انسان انجینئروں سے ایک عالیشان محل تعمیر کروایا جو آبگینوں کی چمک، رنگوں کی دمک ، قطر کی رفعت اورعجیب و غریب دستکاری کی وجہ سے بے مثال تھا۔ اس میں داخل ہونے کے لئے صحن سے گزرنا پڑتا تھا، صحن کی جگہ ایک بڑا حوض کھدوا کر پانی سے لبریز کر دیا گیا، حوض میں پانی شفاف آبگینوں اور بلوروں کے ٹکڑوں سے ایسا نفیس فرش بنوایا کہ دیکھنے والے کی نگاہ دھوکہ کھا کر یقین کر لیتی تھی کہ صحن میں شفاف پانی بہہ رہا ہے۔
ملکہ سبا قصر شاہی میں قیام کے لئےگئی محل کے سامنے پہنچی تو دیکھا شفاف پانی بہہ رہا ہے، پانی میں اترنے کے لئے کپڑوں کو پنڈلی سے اوپر اٹھایا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا:
’’یہ پانی نہیں ہے سارا محل اور اس کا خوبصورت صحن چمکتے ہوئے آبگینوں سے بنایا گیا ہے۔‘‘
شرم سے ملکہ کی آنکھیں جھک گئیں اس کے لاشعور میں چھپی ہوئی نخوت اور بڑائی نے ندامت سے سر جھکا لیا، ملکہ نے نادم اور شرمسار ہو کر بارگاہ الٰہی میں اقرار کیا:
’’اے پروردگار! ماسوائے اللہ کی پرستش کر کے میں نے اپنے نفس پر بہت بڑا ظلم کیا مگر اب سلیمان کے ساتھ ہو کر صرف ایک خدا پر ایمان لاتی ہوں جو تمام کائنات کا پروردگار ہے۔‘‘
حضرت سلیمان علیہ السلام عظیم الشان بادشاہ اور جلیل القدر پیغمبر تھے، پیغمبرانہ اوصاف کی جھلک ہر عمل میں مایاں تھی، کسی شئے اور اپنے درمیان کوئی رشتہ نہیں رکھتے تھے بلکہ ہر شئے کو اللہ کی معرفت جانتے تھے۔
اور ہم نے داؤد کو سلیمان عطا کیا کیسا اچھا بندہ تھا بےشک وہ رجوع کرنے والا تھا جب اس کے سامنے شام کے وقت تیز رو گھوڑے حاضر کیے گئے تو کہا میں نے مال کی محبت کو یاد الہیٰ سے عزیز سمجھا یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو گیا ان کو میرے پاس لوٹا لاؤ پس پنڈلیوں اور گردنوں پر (تلوار) پھیرنے لگا ۔(ص۔۳۰-۳۳)
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔