Topics

معراج

نبوت کے بارہویں سال ۲۷ رجب کو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے حضرت محمدﷺ کو روحانی قرب عطا فرمایا اور جو دل چاہا باتیں کیں۔ اس رات اللہ کے محبوب بندے حضرت محمدﷺ نے مسجد حرام (مکہ) سےمسجد اقصیٰ تک سفر کیا۔ آپ نے بیت المعمور تک سیر کی اور اللہ کی نشانیاں ملاحظہ کیں۔

’’قسم ہے تارے کی جب گرے

بہکا نہیں تمہارا رفیق اور بے راہ نہیں چلا

اور نہیں بولتا اپنے چاؤ سے

یہ تو حکم ہے جو پہنچتا ہے

اس کو سکھایا زبردست قوتوں والے نے

زور آور نے پھر سیدھا بیٹھا

اور وہ تھا اونچے کنارے آسمان کے پھر نزدیک ہوا

اور خوب اتر آیا

پھر رہ گیا فرق دو کمان کا درمیان یا اس سے بھی نزدیک

پھر باتیں کیں اللہ نے اپنے بندے سے جو باتیں کیں

جھوٹ نہ دیکھا دل نے جو دیکھا

اب تم کیا اس سے جھگڑتے ہو اس پر جو اس نے دیکھا

اور اس کو اس نے دیکھا ہے ایک دوسرے تارے میں۔‘‘

(سورہ نجم۔ ۱،۱۳)

تمام انبیاء کرامؑ کو مرتبہ اور مقام کے اعتبار سے معراج نصیب ہوئی ہے۔

’’ہم نے ابراہیم کو ملکوت السمٰوات والارض کا مشاہدہ کروایا۔‘‘

تورات میں ہے کہ:

’’یعقوب بیر سبع سے نکلا تو حاران کی طرف روانہ ہوا اور وہاں ایک مقام پر جا لیٹا، کیونکہ سورج ڈوب گیا تھا اور اسی مقام سے کچھ پتھر اپنے سر کے نیچے رکھ لئے اور سو گیا، خواب میں دیکھا کہ زمین سے آسمان تک ایک سیڑھی لگی ہوئی ہے جس پر خدا کے فرشتے چڑھ اور اتر رہے ہیں اور خدا اس پر کھڑا ہے۔ اس نے کہا، ’ میں ہوں خداوند تیرے باپ ابراہیم اور اسحٰق کا خدا، جس زمین پر تو سو رہا ہے وہ تجھ کو اور تیری نسل کو دونگا۔‘‘

توریت میں بنی اسرائیل کے دوسرے انبیاء کے مشاہداتی اور روحانی سیر کا تذکرہ بھی ہے۔ انجیل میں پیغمبر یوحناؑ کا مکاشفہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ بائیس ابواب پر مشتمل اس روحانی واردات میں قیامت، جزا، سزا اور جنت و دوزخ سے متعلق ایسی باتیں ہیں جو قرآن پاک میں مذکور ہیں۔

پیغمبر اسلام سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے معراج میں ان حدود کو عبور کر لیا جس کے بارے میں حضرت جبرائیلؑ نے کہا:’’فروغ تجلی بوزدپرم۔‘‘

امام الانبیاء

معراج میں حضور اکرمﷺ کو اللہ تعالیٰ نے خلوت خاص میں ملاقات کا شرف بخشا۔ تجلیات الٰہی کا مشاہدہ کرنے میں رسول اللہﷺ کی پلک جھپکی اور نہ نگاہ حد سے بڑھی۔ انبیاء کرام نے محمد رسول اللہﷺ کی امامت میں نماز ادا کی۔ پہلے آسمان پر حضرت آدمؑ سے دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ سے، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف سے، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون سے، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ سے اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم سے ملاقات ہوئی۔

رسول اکرم صلى الله عليه وسلم فرماتے ہیں: 

’’میں جب وہاں سے رخصت ہونے لگا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رقت طاری ہو گئی، میں نے رونے کا سبب دریافت کیا تو حضرت موسیٰ ؑ نے کہا، مجھے یہ رشک ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی ہستی کو جو میرے بعد مبعوث ہوئی یہ شرف بخش دیا کہ اس کی امت میری امت کے مقابلے میں چند دو چند زیادہ جنت میں جائے گی۔‘‘

جب ساتویں آسمان پر پہنچا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، جو بیت المعمور سے پشت لگائے بیٹھے تھے جس میں نئے ستر ہزار فرشتے (ہر روز عبادت کے لئے) داخل ہوتے ہیں، انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا۔‘‘

جنت و دوزخ کا مشاہدہ

رسول اکرمﷺ کو جنت دوزخ کا مشاہدہ کرایا گیا اور رب العالمین سے براہ راست ہم کلامی اور دیدار کی سعادت عظمیٰ حاصل ہوئی۔

حضرت جبرائیلؑ 

۲۷ رجب بروز سینچر بوقت شب محمد رسول اللہﷺ حضرت ام حانیؓ کے گھر آرام فرما رہے تھے کہ حضرت جبرائیلؑ تشریف لائے اور انہوں نے عرض کیا:

’’اللہ تعالیٰ نے آپ کو آسمانوں کی سیر کے لئے بلایا ہے۔‘‘

جبرائیل امین رسول اللہﷺ کو بیت اللہ شریف لے آئے۔ حضورﷺ کا سینہ مبارک کھولا، آب زم زم سے قلب کو دھویا، سینے میں نور بھرا اور سفر کے لئے براق حاضر کیا جو روشنی کی طرح تیز رفتار تھا۔

اللہ کے آخری نبیﷺ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ پہنچے، مکہ سے بیت المقدس کا راستہ سینکڑوں میل تھا جو آن واحد میں طے ہو گیا۔ انبیا کرامؑ نے مسجد اقصیٰ میں سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا استقبال کیا۔ جبرائیلؑ نے اذان دی اور محمد رسول اللہﷺ نے امامت فرمائی۔

قیام صلوٰۃ کے بعد دوبارہ معراج کا سفر شروع ہوا۔

سدرۃ المنتہیٰ

ساتویں آسمان میں انبیاء سے ملاقات کرتے ہوئے جبرائیل امین کے ہمراہ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے۔ سدرۃ المنتہیٰ جبرائیل کیلئے آخری مقام ہے۔ حضرت جبرائیلؑ نے عرض کیا:

’’اللہ کے حبیبﷺ! میں اس مقام سے آگے نہیں جا سکتا آگے خود تشریف لے جایئے۔‘‘

حکمت

رسول اللہﷺ پر نازل ہونے والی کتاب قرآن حکیم ماورائی علوم اور تسخیر کائنات کے فارمولوں کی دستاویز ہے اس کتاب میں ہر چھوٹی بڑی بات کے معنی اور مفہوم کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ قرآن حکیم میں لاکھوں سال پہلے کے، لاکھوں سال بعد میں آنے والے اور موجودہ ہر دور کے سائنسی علوم موجود ہیں۔


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔