Topics
حضرت سلیمان علیہ السلام اس کے باوجود کہ جلیل القدر نبی اور عظیم الشان سلطنت کے فرمانروا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو متعدد آزمائشوں سے گزارا۔ ایک مرتبہ آپ قضائے حاجت کے لئے باہر گیا اور اپنی انگوٹھی جس میں ’’اسم اعظم‘‘ کندہ تھا۔ کنیز کے حوالے کر گئے اس دوران دیوؤں کا بادشاہ حمود لیس وہاں آ گیا اور کنیز سے انگوٹھی چھین کر تخت شاہی پر بیٹھ گیا۔ انگوٹھی امور سلطنت کے لئے مہر تھی جو احکامات پر لگائی جاتی تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام سے سب کچھ چھن گیا اور آپ جنگل کی طرف نکل گئے۔
ایک روز حضرت سلیمان علیہ السلام نے بھوک کی شدت محسوس کرتے ہوئے ایک گھر کے دروازے پر دستک دی، گھر سے خاتون کی آواز آئی کون ہے؟ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جواب دیا، میں ہوں جس کی دعوت کرنا لازمی ہے۔ خاتون نے کہا، میں اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں کسی غیر محرم مرد کی دعوت نہیں کر سکتی۔ البتہ میرے باغ میں چلے جاؤ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام ایک باغ میں چلے گئے اور ایک درخت کے نیچے سو گئے۔ ایک ناگ ان کے قریب آ کر پہرا دینے لگا۔ خاتون کا شوہر جب باغ میں آیا تو یہ منظر دیکھ کر پریشان ہو گیا، اس نے بیوی سے دریافت کیا یہ شخص کون ہے؟ اور یہاں کیوں سو رہا ہے؟ بیوی نے کہا یہ کوئی مسافر ہے گھر پر دستک دی تھی میں نے کہا میرا شوہر گھر پر نہیں ہے تم باغ میں چلے جاؤ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام سو کر اٹھے تو ناگ وہاں سے چلا گیا۔ خاتون کا شوہر حضرت سلیمان علیہ السلام سے بہت متاثر ہوا، آپ کی خوب خاطر مدارات کیں اور اپنی بیٹی کا رشتہ دینے کی پیش کش کی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس شخص کی پیش کش کو قبول کر لیا، تین روز قیام کرنے کے بعد وہاں سے کہیں اور روانہ ہو گئے۔
حمودلیس قوم جنات میں سے تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی شکل و صورت اختیار کر کے تخت پر قابض تھا۔ اس کی حرکتوں سے لوگوں کو شک گزرا کہ یہ حضرت سلیمان علیہ السلام نہیں ہیں، شک دور کرنے کے لئے معاون حکومت نے بادشاہ سے تورات پڑھ کر سنانے کو کہا، حمود لیس تورات نہ پڑھ سکا، لوگوں نے تورات پڑھنا شروع کر دی، حمود لیس کلام الٰہی سن کر وہاں سے غائب ہو گیا اور انگوٹھی دریا میں پھینک دی۔
مچھلی میں انگوٹھی
ایک روز حضرت سلیمان علیہ السلام نے دریا کے کنارے کچھ لوگوں کو مچھلی پکڑتے دیکھا۔ آپ بھی ایک شخص کے ساتھ مچھلیاں پکڑنے لگے۔ ایک مچھلی ان کے جال میں بھی آ گئی گھر آ کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے بیوی سے مچھلی پکانے کے لئے کہا، مچھلی کا شکم چاک کیا گیا تو اس میں سے انگوٹھی نکل آئی اس طرح چھینا ہوا تخت آپ کو واپس مل گیا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کا دسترخوان نہایت وسیع تھا۔ آپ کے لنگر خانے میں ہر وقت خلقت کا ہجوم رہتا تھا۔ آپ مخلوق کو کھانا کھلا کر بہت خوش ہوتے تھے، ایک روز آپ کو خیال آیا کہا، اللہ کی مخلوق کی دعوت کرنی چاہئے، حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ سے درخواست کی:
’’اے رب العالمین! میں تیری مخلوق کی دعوت کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
اللہ نے کہا:
’’اے سلیمان! روزی دینا میرا کام ہے تم ایک وقت بھی مخلوق کو نہیں کھلا سکو گے۔‘‘
حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا:
’’خداوند جو کچھ میرے پاس ہے وہ بھی تو تیرا عطا کردہ ہے اور اسی میں سے میں تیری مخلوق کی دعوت کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ان کی خواہش کو قبول فرما لیا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے زمین کے وسیع و عریض رقبہ پر اس دعوت کا اہتمام کیا اور جنات کو جنگل میں نہایت صاف اور شفاف فرش بچھانے اور مشرق سے مغرب تک اشیائے خورد و نوش لا کر جمع کرنے کے احکامات دیئے، ہوا کو حکم دیا کہ وہ فرش زمین کو اٹھا کر ہوا میں معلق کر دے تا کہ ہر مخلوق اس دعوت میں شریک ہو سکے۔
سات لاکھ دیگیں
بتایا جاتا ہے کہ سات لاکھ وسیع و عریض دیگوں میں کھانا تیار ہوگیا تو ایک مچھلی نے دریا سے سر باہر نکال کر حضرت سلیمان علیہ السلام سے کہا:
’’مجھے آج حکم ہوا ہے کہ آپ کی دعوت طعام میں شرکت کروں، مجھے کھانا کھلایئے۔‘‘
حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا:
’’کھانا حاضر ہے۔‘‘
سات لاکھ دیگوں میں پکایا ہوا کھانا ایک مچھلی کھا گئی، کھانا کھانے کے بعد مچھلی بولی:
’’میرا پیٹ ابھی نہیں بھرا، میں نے ایک لقمہ کھایا ہے اللہ تعالیٰ مجھے ایسے تین لقمے روزانہ کھلاتا ہے۔‘‘
حضرت سلیمان علیہ السلام نے سربسجود ہو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا:
’’بلاشبہ تمام مخلوق کو روزی دینا صرف اللہ ہی کا کام ہے۔‘‘
سورہ ’’ص‘‘ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی ایک آزمائش اور اس کے بعد آپ کی دعا کا تذکرہ ہے۔
’’اور ہم نے سلیمان کی آزمائش کی اور ان کے تخت پر ایک دھڑ ڈال دیا پھر انہوں نے خدا کی طرف رجوع کیا اور دعا کی کہ اے پروردگار! میری مغفرت فرما اور مجھے ایسی بادشاہت عطا فرما کہ میرے بعد ایسی بادشاہت کسی کی نہ ہو بے شک تو بڑا عطا کرنے والا ہے۔‘‘
(ص۔ ۳۵)
مفسرین نے اس آیت کی تشریح میں فرمایا ہے:
’’حضرت سلیمان علیہ السلام ایک مرتبہ سخت علیل ہو گئے اور ان کی حالت اس درجہ نازک ہو گئی کہ جب تخت پر لٹایا گیا تو لگتا تھا کہ جسم میں روح نہیں ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو صحت عطا فرمائی جب وہ تندرست ہو گئے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر کے مغفرت طلب کی اور اپنی بے چارگی کا اظہار کیا اور دعا کی کہ:
’’اے اللہ! مجھے لاثانی حکومت عطا فرما۔‘‘
اس آزمائش کا مقصد یہ تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام عین الیقین کے درجہ سے سمجھ لیں کہ شان و شوکت، اقتدار اور موت و حیات سب اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام ایک اولوالعزم رسول کی طرح اللہ کے سامنے جھک جائیں اور خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ سے مغفرت طلب کریں۔
دیمک
قرآن پاک نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کا جو واقعہ بیان کیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم سے جنات ایک عظیم الشان عمارت بنانے میں مصروف تھے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو پیغام اجل آ پہنچا مگر اجنہ کو ان کی موت کی خبر نہ ہوئی اور وہ اپنے کاموں میں مصروف رہے، دیمک نے ان کی لاٹھی کو چاٹ کر اس توازن کو خراب کر دیا جس پر حضرت سلیمان علیہ السلام ٹیک لگائے کھڑے تھے اور لاٹھی ٹوٹنے سے حضرت سلیمان علیہ السلام گر گئے اس وقت جنات کو معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا انتقال ہو چکا ہے کہنے لگے کہ افسوس ہم نہ معلوم کر سکے کاش کہ ہم علم غیب رکھتے تو عرصہ تک اس محنت و مشقت میں نہ پڑے رہتے جس میں حضرت سلیمانؑ کے خوف سے مبتلا رہے۔
’’اور جب ہم نے اس (سلیمان) کی موت کا فیصلہ کر دیا تو ان (جنوں) کو اس کی صورت کی کسی نے اطلاع نہیں دی مگر دیمک نے کہ جو سلیمان کی لاٹھی چاٹ رہی تھی اور جب سلیمان لاٹھی کے توازن خراب ہونے کی وجہ سے گر پڑا تو جنات پر یہ ظاہر ہو گیا کہ وہ غیب کا علم رکھتے ہوتے تو اس سخت مصیبت میں مبتلا نہ رہتے۔‘‘
(سورۃ سبا۔ ۱۴)
ہاروت و ماروت
بنی اسرائیل نے اپنی الہامی کتابوں میں تحریف کر دی تھی اور اپنی دنیاوی اغراض کی خاطر اس میں ہر طرح کا رد و بدل کر دیا تھا چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے معاملہ میں اس قدر جسارت اختیار کی کہ ان کی نبوت و رسالت سے بھی انکار کر کے ان پر طرح طرح کے الزامات اور بیہودہ بہتان لگائے۔ ان میں سے ایک الزام حضرت سلیمان علیہ السلام پر یہ بھی لگایا گیا کہ وہ جادوکے حامل اور اسی کے زور پر بادشاہ تھے اور جادو کے ذریعے جن و انس، طیور اورہوا کو مسخر کئے ہوئے تھے۔
یہ بھی مشہور تھا کہ جنات غیب کا علم جانتے ہیں چنانچہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے شیاطین کے ان تمام نوشتوں کو حاصل کر کے اپنے تخت کے نیچے دفن کر دیا تا کہ جن و انس کسی کی بھی وہاں تک رسائی نہ ہو اور یہ فرمان جاری کر دیا کہ جو شخص سحر کرے گا یا جنوں کے متعلق علم غیب کا عقیدہ رکھے گا تو اس کی سزا گردن زنی ہے۔
مدفون نوشتے
حضرت سلیمان علیہ السلام کا انتقال ہو گیا تو شیاطین نے ان مدفون نوشتوں کو نکال لیا اور بنی اسرائیل میں یہ عقیدہ پیدا کر دیا کہ جادو کا یہ علم حضرت سلیمان علیہ السلام کا علم ہے اور وہ اسی قوت سے جن و انس، وحوش و طیور اور ہوا پر حکومت کرتے تھے اور اس طرح جادو پھر بنی اسرائیل میں رائج ہو گیا:
’’اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے رسول آیا جو تصدیق کر رہا تھا، ان الہامی کتابوں کی جو ان کے پاس ہیں تو جو لوگ کتاب دیئے گئے تھے انہوں نے کتاب کو پس پشت ڈال دیا اور آپ کے متعلق ایسے ہو گئے گویا وہ جانتے ہی نہیں اور انہوں نے سلیمان کے زمانے میں اس چیز کی پیروی اختیار کر لی تھی جو شیاطین پڑھتے تھے اور سلیمان نے کفر نہیں کیا تھا لیکن شیاطین نے کفر کیا تھا کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور وہ جو بابل میں ہاروت و ماروت دو فرشتوں پر نازل کیا گیا اور جس کو وہ دونوں جب کسی کو سکھاتے تھے تو یہ کہہ کر سکھاتے تھے کہ ہم تمہارے لئے سخت آزمائش ہیں لہٰذا تم کفر نہ کرنا مگر وہ ان دونوں سے بھی ایسی بات سیکھے کہ جس کے ذریعے سے زن و شوہر کے درمیان تفریق پیدا ہو جائے حالانکہ وہ اس کے ذریعہ سے خدا کی مرضی کے بغیر کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے، وہ ایسی شئے دیکھتے ہیں جو ان کو نقصان پہنچانے والی ہے اور ان کو ہرگز نفع نہیں دے گی اور بلاشبہ وہ جانتے ہیں کہ جس شخص نے اس شئے کو خریدا اس کیلئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور ضرور وہ شئے بہت بری ہے جس کے عیوض میں انہوں نے اپنی جان فروخت کر ڈالی، کاش کہ وہ سمجھتے اور وہ کام نہ کرتے جس کا نتیجہ برا ہے۔‘‘
(سورۃ البقرہ: ۱۰۱۔۱۰۳)
ہاروت و ماروت دو فرشتے آسمان سے نازل کئے گئے اور انہوں نے بنی اسرائیل کو تورات سے ماخوذ اسماء و صفات الٰہی کے اسرار کا ایسا علم سکھایا جو ’’سحر‘‘ کے مقابلے میں ممتاز اور سحر کے ناپاک اثرات سے پاک تھا۔ جب وہ فرشتے بنی اسرائیل کو علم سکھاتے تو ان کو نصیحت کرتے کہ:
’’اب جب کہ تم پر اصل حقیقت منکشف ہو گئی ہے اور تم نے حق و باطل کا مشاہدہ کر لیا ہے تو اب کتاب اللہ کے علم کو نہ چھوڑنا، تم جادو کی طرف رجوع کرو گے تو بلاشبہ کافر ہو جاؤ گے کیونکہ خدا کی محبت تم پر تمام ہو گئی ہے۔ یاد رکھو ہمارے وجود تمہارے لئے ایک آزمائش ہے دیکھنا یہ ہے کہ ہماری تعلیم کے بعد تم شیاطین کے تابع ’’جادو‘‘ کے شیدائی رہتے ہو یا اس سے زیادہ زبردست ’’کتاب اللہ‘‘ کے علم کی پیروی کرتے ہو۔‘‘
لیکن بنی اسرائیل نے ان پاک ’’علوی علوم‘‘ کو ناجائز اور من مانی خواہشات کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔
فطرت اور جبلت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ جبلت میں ہمارا دوسری نوعوں مثلاً بھیڑ، بکری، گائے، بھینس، کتے، بلی یا سانپ، کبوتر، فاختہ وغیرہ کے ساتھ ذہنی اشتراک ہے اور فطرت میں ہم اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں اور یہ مقام ہمیں ایک ہستی نے جو تمام نوعوں سے ماوراء ہے اور جو تمام افراد کائنات پر فضیلت رکھتی ہے، عطا کیا ہے۔ اور یہ عطا ایک فاضل عقل یا تفکر ہے۔ کوئی ذی فہم اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ حیوانات میں عقل و شعور نہیں ہے۔ بعض معاملات میں جانور انسان سے زیادہ باشعور اور عقلمند ہیں۔
زمین پر ایسے چوپائے بھی موجود ہیں جن میں مستقل بینی کی صلاحیت ہوتی ہے۔ بلی کتے اور کئی دوسری قسم کے جانوروں کو آنے والی مصیبتوں اور زلزلوں کا پہلے سے ہی پتہ چل جاتا ہے انسان کی سماعتی صلاحیت (Hearing Power) نسبتاً انتہائی محدود ہے، انسان ایک ہزار چکر فی سیکنڈ یا اس سے زیادہ چکر کی آواز کی لہروں کو محسوس کر سکتا ہے لیکن بیس ہزار چکر فی سیکنڈ یا اس سے زیادہ چکر کی آواز کی لہروں کو انسانی کان سن نہیں سکتے۔ اس کے برعکس کتے، بلیاں اور لومڑیاں ساٹھ ہزار چکر فی سیکنڈ کی آوازیں سن سکتے ہیں۔ چوہے، چمگاڈر، وہیل اور ڈولفن ایک لاکھ چکر فی سیکنڈ کی آوازیں سن سکتے ہیں۔
مدہم ارتعاش
مچھلیاں بھی سمندر میں انتہائی مدہم ارتعاش کو محسوس کر لیتی ہیں۔ انسان میں دیکھنے کی حد Rangeبہت کم ہوتی ہے جبکہ شہد کی مکھی ماورائے بنفشی شعاعیں Ultraviolet Raysدیکھ سکتی ہیں۔ انسان کے مقابلے میں شاہین کی آنکھ کسی چیز کو آٹھ گناہ بڑا دیکھتی ہے۔
حضرت بابا تاج الدین ناگپوری رحمتہ اللہ علیہ کے نواسے اور قلندر شعور کے بانی قلندر بابا اولیاءؒ اپنی کتاب ’’تذکرہ تاج الدین بابا‘‘
میں شیر کی عقیدت کے عنوان سے ایک واقعہ کی علمی توجیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
ایک دن بابا تاج الدینؒ واکی شریف کے جنگل (بھارت) میں چند لوگوں کے ساتھ پہاڑ پر چڑھتے چلے گئے، ناناؒ مسکرا کر کہنے لگے، ’’میاں! جس کو شیر کا ڈر ہو وہ چلا جائے میں تو یہاں ذرا سی دیر آرام کروں گا، خیال ہے کہ شیر ضرور آئے گا جتنی دیر قیام کرے اس کی مرضی تم لوگ جاؤ کھاؤ پیو اور مزے کرو۔‘‘
بعض لوگ ادھر ادھر چھپ گئے اور زیادہ تر چلے گئے، گرمی کا موسم تھا، درختوں کا سایہ اور ٹھنڈی ہوا خمار کا طوفان اٹھا رہی تھی، نانا اب دبیز گھاس پر لیٹ چکے تھے۔ آنکھیں بند تھیں، فضا میں بالکل سناٹا چھایا ہوا تھا، چند منٹ گزرے تھے کہ جنگل بھیانک محسوس ہونے لگا اس کے بعد بھی کچھ وقفہ ایسے گزر گیا جیسے شدید انتظار ہو، یہ انتظار کسی سادھو، کسی جوگی، کسی اوتار، کسی ولی یا کسی انسان کا نہیں تھا بلکہ ایک درندہ کا تھا جو کم از کم میرے ذہن میں قدم بہ قدم حرکت کر رہا تھا، یکایک ناناؒ کی طرف نگاہیں متوجہ ہو گئیں، ان کی پیروں کی طرف ایک طویل القامت شیر ڈھلان سے اوپر چڑھ رہا تھا، بڑی آہستہ خرامی سے، بڑے ادب کے ساتھ۔
شیر نیم وا آنکھوں سے نانا تاج الدینؒ کی طرف دیکھ رہا تھا، ذرا دیر میں وہ پیروں کے بالکل قریب آ گیا، نانا گہری نیند میں بے خبر تھے، شیر زبان سے تلوے چھو رہا تھا، چند منٹ بعد اس کی آنکھیں مستانہ واری سے بند ہو گئیں اس نے اپنا سر زمین پر رکھ دیا، نانا تاج الدینؒ ابھی تک سو رہے تھے، شیر نے اب ذرا ہمت کر کے تلوے چاٹنا شروع کر دیئے۔
اس حرکت سے نانا کی آنکھ کھل گئی اٹھ کر بیٹھ گئے، شیر کے سر پر ہاتھ پھیرا کہنے لگے۔ ’’تو آ گیا۔ اب تیری صحت بالکل ٹھیک ہے، میں تجھے تندرست دیکھ کر بہت خوش ہوا اچھا اب جا۔‘‘
شیر نے بڑی ممنونیت سے دم ہلائی اور چلا گیا۔
حضرت قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اس واقعہ پر بہت غور کیا یہ بات کسی کو معلوم نہیں کہ شیر پہلے کبھی ناناؒ کے پاس آیا تھا مجبوراً اس امر کا یقین کرنا پڑتا ہے کہ ناناؒ اور شیر پہلے ہی سے ذہنی طور پر روشناس تھے۔ روشناسی کا طریقہ ایک ہی ہو سکتا ہے۔ انا کی جو* لہریں نانا اور شیر کے درمیان رد و بدل ہوتی تھیں وہ آپس کی ملاقات کا باعث بنتی تھی۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ جانوروں میں بھی کشف ہوتا ہے اور اس معاملے میں انسان اور دوسری مخلوق یکساں ہیں۔
(* انا کی لہریں لامتناہیت میں بیک وقت ہر جگہ موجود ہیں ان لہروں کے لئے زمانی مکانی فاصلے موجود ہی نہیں ہیں۔ روشنی کی لہریں جن فاصلوں کو کم کرتی ہیں۔ انا کی لہریں ان ہی فاصلوں کو بجائے خود موجود نہیں جانتیں۔ ان لہروں کے ذریعے انسان نباتات، حیوانات، جمادات سب تبادلہ خیالات کرتے ہیں۔ کائنات کا پھیلاؤ لہروں کے اوپر قائم ہے جو شخص لہروں کے نظام اور لہروں کے پھیلاؤ سے جتنا واقف ہو جاتا ہے اسی مناسبت سے اسے ماورائی دنیا کا ادراک ہو جاتا ہے۔ )
درج بالا مثال ثابت کرتی ہے کہ حیوانات عقل و شعور رکھتے ہیں ان میں زندگی گزارنے کی قدریں انسان کی معاشرتی زندگی سے کافی حد تک مماثلت رکھتی ہیں، چیونٹی جیسی انتہائی چھوٹی مخلوق کی عقل کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس میں ایک چیونٹی نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر کی دعوت کی تھی اور حضرت سلیمان علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر اور عظیم بادشاہ سے دانشمندانہ گفتگو کی تھی، چیونٹی جیسی ننھی مخلوق کا اپنا ایک طرز معاشرت ہے اس ننھے سے کیڑے میں وہ تمام نظام موجود ہے جو انسان کی زندگی میں داخل ہے۔ چیونٹیوں کا خاندان ہزاروں افراد پر مشتمل ہوتا ہے اس میں مختلف شکل اور رنگ و روپ کی چیونٹیاں ہوتی ہیں پورے خاندان میں ایک ملکہ ہوتی ہے، پوری آبادی میں اس کا حکم چلتا ہے اور ہر رکن اس کے حکم کا پابند ہوتا ہے۔ آبادی میں فنکار چیونٹیاں بھی ہوتی ہیں، انجینئر بھی ہوتی ہیں، ماہر باغبانی بھی ہوتی ہیں اور چیونٹیوں کی فوج بھی ہوتی ہے ان میں ایثار و قربانی کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے۔ درزی، سائنسدان اور ٹائم اسپیس سے آزاد چیونٹیاں بھی اپنے فرائض مکمل طور پر انجام دیتی ہیں یہ ننھی سی مخلوق اس قدر نظم و ضبط اور تعاون سے کس طرح کام کرتی ہے۔ نظم و ضبط اور تعاون باہمی سے رہنے کا طریقہ اس مخلوق کو قدرت سکھاتی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔