Topics

لیزر شعاعیں

حضرت داؤدؑ کے ہاتھوں میں ایسی توانائی تھی کہ ’’لوہا‘‘ ان کے ہاتھوں میں موم کی طرح نرم ہو جاتا تھا۔ اور وہ بڑی آسانی سے لوہے کو ہاتھوں سے موڑ کر زرہ اور کڑیاں بنا لیتے تھے اور کڑیاں جوڑ کر زنجیر بن جاتی تھی۔ 

موجودہ دور سائنسی دور ہے اور اس دور میں شعور نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ بڑے بڑے پیچیدہ معاملات کی تشریح آسان ہو گئی ہے۔

لیزر شعاع اور عام روشنی میں یہ فرق ہے کہ عام روشنی سات مختلف رنگوں سے مل کر بنی ہے لیکن لیزر یک رنگ شعاع ہے۔ عام روشنی کو منشور (Prism) میں سے گزارا جائے تو وہ سات مختلف رنگوں میں تقسیم ہو جاتی ہے لیکن لیزر شعاع منشور میں سے گزرنے کے بعد بھی اپنے ایک رنگ میں برقرار رہتی ہے۔ نیز یہ کہ لیزر شعاع کا پھیلاؤ کم ہوتا ہے مثلاً عام روشنی کی بیم ۱۰۰۰ فٹ دور کسی دیوار پر ڈالی جائے تو روشنی تقریباً ۲۰۰ فٹ علاقہ میں پھیل جائے گی اور اس کی طاقت کم ہو جائے گی جبکہ لیزر شعاع کا پھیلاؤ زیادہ سے زیادہ آدھ یا ایک فٹ ہو گا اور اس کی طاقت بھی برقرار رہے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام روشنی میں شامل ہر رنگ کی لہر کا طول موج (Wave Length) مختلف ہوتا ہے۔

جب ایک لہر کا فراز دوسری لہر کے نشیب سے ٹکراتا ہے تو وہ ایک دوسرے کو رد کر دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ روشنی اپنے منبع سے اخراج کے بعد مختلف سمتوں میں سفر شروع کر دیتی ہے۔ جبکہ لیزر شعاع میں لہروں کے نشیب و فراز یکساں ہوتے ہیں اس لئے یہ ایک دوسرے میں پیوست اور متحد رہتی ہیں اور ایک سیدھ میں طویل فاصلہ طے کر لیتی ہیں اور ہمیشہ یکساں حالت میں رہتی ہیں۔

ہر شئے کے مالیکیول ایک خاص فریکوئنسی سے حرکت کرتے ہیں۔ ان پر بجلی یا حرارت وغیرہ اثر انداز ہو تو ہر ایٹم سے جداگا نہ طور پر فوٹون کا اخراج ہوتا ہے اور دوسرے ایٹموں سے خارج ہونے والے فوٹون سے اس اخراج کا کوئی تعلق یا نسبت نہیں ہوتی چنانچہ روشنی کی شعاع جو کہ فوٹون پر مشتمل ہوتی ہے برقی مقناطیسی لہروں کا پیچیدہ آمیزہ بن جاتی ہے۔

لیزر کا اصول یہ ہے کہ فوٹون کا اخراج ہر ایٹم خود نہ کرے بلکہ اسے ایسے اخراج پر مجبور کیا جائے جس میں فوٹون ایک ہی سمت میں خارج ہوں اور ان سب کا فیز (نشیب و فراز) ایک ہی ہو۔ کسی ایٹم کو جب عام حالت میں توانائی فراہم کی جاتی ہے تو وہ بلند سطح پر چلا جاتا ہے۔

اس حالت کو برانگیختہ حالت کہتے ہیں۔ ایٹم دوبارہ اپنی عام حالت میں آ نا چاہتا ہے چنانچہ وہ توانائی جو اس نے جذب کی تھی روشنی کے چھوٹے چھوٹے پیکٹوں کی شکل میں خارج کرتا ہے۔ یہی پیکٹ فوٹون کہلاتے ہیں۔ اب اگر کوئی ایسا طریقہ استعمال کیا جائے جس کے ذریعہ یہ فوٹون ایک ہی سمت میں اور ایک ہی فیز میں حرکت کریں تو ہمیں طاقتور شعاع لیزر(Laser) حاصل ہو جائے گی۔

ہر مقناطیسی لہروں پر مشتمل لیزر شعاع اصل میں یک رنگی روشنی (Mono Chromatic Light) کی ایک انتہائی طاقتور صورت ہے جو کہ طیف (Spectrum) کے مرئی (Visible) حصے کے علاوہ بالا بنفشی (Ultra Violet) اور زیریں سرخ (Infra Red) حصہ میں بھی ہوتی ہے۔ مرکری اور سوڈیم سے خارج شدہ روشنی اس کی ایک قریبی مثال ہے۔

ٹھوس اشیاء کو کاٹنے اور ان میں سوراخ کرنے کے لئے جو لیزر استعمال ہوتی ہے وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ لیزر کہلاتی ہے جو کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن کے باہم ملاپ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ نہایت طاقتور اور شدت کی زیریں سرخ شعاعوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایسی لیزر کسی جسم میں داخل ہو کر اس کی اندرونی توانائی بڑھا دیتی ہے نتیجتاً اس حصے کا درجہ حرارت لیزر کے ٹکراؤ کی وجہ سے بڑھ جاتا ہے اور وہ بخارات بن کر اڑ جاتا ہے۔

لیزر پر جدید تحقیق اور نت نئے طریقوں سے لیزر شعاع پیدا کرنے سے زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں لیزر کا استعمال عام نہ ہو۔

تخلیق روشنی کے تانے بانے پر قائم ہے

تخلیقی پروسیس (Process)کے مطابق ہر فرد روشنی کے جال پر نقش ہے۔ یہ جال مفرد اور مرکب لہروں سے بنا ہوا ہے۔ ہر انسان میں مرکب لہروں کے ساتھ مفرد لہریں بھی موجود ہیں۔ اسمائے الٰہی کے علوم کے تحت مفرد لہروں کو کہیں بھی عارضی طور پر ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ حضرت داؤدؑ جب لوہے کی زرہیں، خود اور دوسری اشیاء بناتے تھے تو مفرد لہروں یعنی لیزر شعاعوں کو ہاتھوں میں سے گزار دیتے تھے اور ان کے ہاتھوں میں لوہا مولڈ ہو جاتا تھا اور وہ لوہے کو حسب منشاء موڑ لیتے تھے اور انگلیوں میں لیزر شعاعوں کو جمع کر کے سامان حرب تیار کر لیتے تھے۔ ترکی کے میوزیم توپ کاپی میں حضرت داؤدؑ کے زمانے کی لوہے کی ہنڈیاں رکھی ہوئی ہے۔ جو اس طرح بنائی گئی ہے کہ جیسے کمہار ہاتھ سے مٹی کی ہنڈیا بناتا ہے۔

کائنات کی ساخت دو رخوں پر کی گئی ہے۔ کائنات میں بے شمار مخلوقات ہیں۔ ان مخلوقات میں قابل تذکرہ مخلوقات فرشتے، جنات اور انسان ہیں۔ یہ تینوں مخلوقات ہماری زمین کی طرح ہر عالم اور ہر زمین پر موجود ہیں۔ ہماری زمین پر بے شمار گیسس بھی ہیں۔ ان گیسس کو روشنیاں فیڈ کرتی ہیں۔ روشنی لہروں کی صورت میں سفر کرتی ہے۔ فرشتوں اور جنات کی تخلیق میں مفرد لہریں اور انسان کی تخلیق میں مرکب لہریں کام کرتی ہیں۔ کپڑے کی مثال سے بات آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے۔

کپڑا تانے بانے سے بنا جاتا ہے۔ تانے اور بانے کو شعاع یا لہر قرار دے دیا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ متحرک لکیریں (دھاگے کے تار) اگرچہ ایک دوسرے سے الگ ہیں مگر ایک دوسرے میں پیوست بھی ہیں۔ اسی طرح مرکب لہروں کے بجائے ایک سیدھی لہر(ایک دھاگہ) سے کپڑا بنا جائے اور اس کپڑے کے اوپر اعضاء کے نقوش سے تصویر بنائی جائے تو یہ تصویر فرشتے یا جن کی تصویر ہو گی۔ اور اگر اس کپڑے پر بانے کی طرح ایک دوسری حرکت جو پہلی حرکت کے خلاف سمت میں جاری و ساری ہے آ کر پیوست ہو جائے تو اس کپڑے کے اندر بہت سے نقش و نگار بن جائیں گے۔ یعنی تانے بانے یا مرکب لہروں پر نقش و نگار کا نام آدمی ہے اور یہی انسان کی دنیا ہے۔

مفرد لہر اور مرکب لہر

ایک لہر یا حرکت مفرد جنات کی دنیا ہے اور دوہری لہر یا حرکت مرکب انسان کی دنیا ہے۔ مفرد لہر یا نسمہ مفرد کا جسم مادی آنکھ سے نظر نہیں آتا البتہ مرکب لہر سے بنا ہوا مادی جسم نظر آتا ہے۔

مفرد لہر ہر شئے میں سے گزر جاتی ہے۔ اگر انسان کے اوپر مفرد لہر کا غلبہ ہو جائے تو وہ ٹھوس دیوار میں سے گزر جاتا ہے۔ آسمانوں میں پرواز کرتا ہے۔ کسی شئے کی ماہیت قلب کر سکتا ہے۔

فرشتوں کے لئے ہماری ٹھوس دنیا کوئی حیثیت نہیں رکھتی وہ ہوا کی طرح موٹی سے موٹی دیوار میں سے گزر جاتے ہیں۔ اسی طرح جنات بھی مادے کے ٹھوس پن سے متاثر نہیں ہوتے۔ جب لوہے کو بھٹی میں ڈال دیتے ہیں تو بھٹی میں آگ کی تیز تپش 1539ڈگری سینٹی گریڈ لوہے کے نسمہ مرکب کو نسمہ مفرد سے مغلوب کر دیتی ہے۔ نسمہ مرکب مغلوب ہونے سے چونکہ نسمہ مفرد غالب ہو جاتا ہے اس لئے لوہا نرم ہو جاتا ہے۔

حضرت داؤدؑ جب اللہ تعالیٰ کے سکھائے ہوئے علوم اور تفویض کردہ اختیارات سے ارادہ کرتے تھے تو لوہا ان کے ہاتھوں میں موم ہو جاتا تھا۔ یعنی ان کے ہاتھ میں دور کرنے والی نسمہ مرکب کی لہریں نسمہ مفرد میں منتقل ہو کر 1539ڈگری سینٹی گریڈ ہو جاتی تھیں۔ اور جب ارادے کی تکمیل ہو جاتی تھی تو ہاتھوں میں دور کرنے والی غالب مفرد لہریں مرکب لہروں سے مغلوب ہو جاتی تھیں اور ان کے ہاتھ معمول کے مطابق کام کرتے تھے۔

اس کامطلب یہ ہوا کہ حضرت داؤدؑ لیزر شعاعوں کی Equationسے واقف تھے اس لئے جب وہ لیزر شعاعوں کو استعمال کرتے تھے تو سخت لوہا نرم ہو جاتا تھا اور وہ اس سے زرہ، کڑیاں، زنجیریں اور خود (آہنی ٹوپی)بنا لیتے تھے۔

٭٭٭٭٭


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔