Topics
حضرت آدم ؑ کی پیشن گوئی:
پس جب آدم اپنے پیروں پر کھڑا ہوا تو اس نے آسمان میں سورج کی طرح ایک روشن تحریر دیکھی ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ تب آدم نے اپنا منہ کھولا اور کہا!
’’میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں پروردگار کیونکہ تو نے مہربانی کی مجھے پیدا کیا لیکن میں تجھ سے منت کرتا ہوں کہ تو مجھے خبر دے کہ ان کلمات کے کیا معنی ہیں۔
’’محمد رسول اللہ‘‘
تب اللہ نے جواب دیا:
’’مرحبا ہے تجھ کو اے میرے بندے آدم اور میں تجھ سے کہتا ہوں کہ تو پہلا انسان ہے جس کو میں نے پیدا کیا اور یہ شخص جس کو تو نے دیکھا ہے تیرا ہی بیٹا ہے جو کہ اس وقت کے بہت سالوں بعد دنیا میں آئے گا اور میرا ایسا رسول ہو گا کہ اس کے لئے میں نے سب چیزوں کو پیدا کیا اور وہ رسول محمد جب دنیا میں آئے گا دنیا کو ایک روشنی بخشے گا، یہ وہ نبی ہے کہ اس کی روح آسمانی روشنی میں ساٹھ ہزار سال قبل اس لئے رکھی گئی ہے کہ میں کسی چیز کو پیدا کروں۔‘‘
(انجیل برناباس۔ باب ۳۹۔ آیت ۱۴،۱۸)
حضرت نوحؑ کی پیشن گوئی
’’لوگو سنو! نراشس(محمدﷺ) کی لوگوں کے درمیان بہت تعریف کی جائے گی۔‘‘
(وید)
’’اے محبوب نراشس(محمدﷺ) میٹھی زبان والے قربانی دینے والے میں آپ کی قربانیوں کو وسیلہ بناتا ہوں۔‘‘
(وید)
’’اے اگنی(محمدﷺ) منو (نوح) آپ کی رسالت کی تصدیق کرتے ہیں۔‘‘
(وید)
’’اے اگنی (محمدﷺ) ہم آپ کو منو(نوح) کی طرح مذہبی پیشوا، داعی، مذہبی علوم سکھانے والا اور انتہائی عقلمند شخصیت جانتے ہیں۔‘‘
(وید)
حضرت موسیٰ ؑ کی پیشن گوئی
’’تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی پیدا کرے گا تم اس کی سننا۔‘‘
(استثنا۔ باب ۱۸۔ ۱۶)
’’میں ان کے لئے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی بھیجوں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ اسے دوں گا وہی ان سے کہے گا اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا۔‘‘
(استثنا۔ باب ۱۶۔ ۱۹)
’’خداوند سینا سے آیا
اور شعب سے ان پر آشکار ہوا
وہ کوہ فاراں سے جلوہ گر ہوا
اور لاکھوں قدسیوں میں سے آیا۔‘‘
(استثنا۔ باب ۳۳۔۲)
حضرت داؤدؑ کی پیشن گوئی
’’تب جنگل کے درخت خوشی سے خداوند کے حضور گانے لگے۔
کیونکہ وہ زمین کا انصاف کرنے کو آ رہا ہے۔
خدا کا شکر کرو اس لئے کہ وہ نیک ہے۔
کیونکہ اس کی شفقت ابدی ہے۔
تم کہو کہ ہماری نجات کے خدا ہم کو بچا لے۔
اور قوموں میں ہم کو جمع کر اور ان سے ہم کو رہائی دے۔
تا کہ ہم تیرے قدوس نام کا شکر کریں۔
اور للکارتے ہوئے تیری ستائش کریں۔‘‘
(ا۔تواریخ باب ۱۶۔۳۳ ت۳۵)
’’اور وہی صداقت سے ’’جہاں‘‘ کی تعریف کرے گا
وہ راستی سے قوموں کا انصاف کرے گا۔‘‘
(زبور ۹ تا ۸)
’’صادق زمین کے وارث ہونگے
اور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے
صادق کے منہ سے دانائی نکلتی رہتی ہے
اور اس کی زبان سے ایمان کی باتیں
اس کے خدا کی شریعت اس کے دل میں ہے
وہ اپنی روش پر قائم رہے گا۔‘‘
(زبور ۳۷۔۳۱۔۲۹)
’’اپنے نور اپنی سچائی کو بھیج وہی میری رہبری کرے۔‘‘
(زبور ۳۔۴۳)
’’تو بنی آدم میں سب سے حسین ہے
تیرے ہونٹوں میں لطافت بھری ہے
اس لئے خدا نے تجھے ہمیشہ کے لئے مبارک کہا
اے زبردست تو اپنی تلوار کو
جو تیری حشمت و شوکت ہے اپنی کمر سے حمائل کر
اور سچائی اور حلم و صداقت کی خاطر
اپنی شان و شوکت میں اقبال مندی سے سوار ہو
اور تیرا داہنا ہاتھ تجھے مہیب کام دکھائے گا
تیرے تیر تیز ہیں
وہ بادشاہ کے دشمن کے دل میں لگے ہیں
امتیں تیرے سامنے زیر ہوئی ہیں۔‘‘
(زبور۔ ۵۴۔۲تا۵)
’’راستبازوں کے لئے تاریکی میں ایک نور چمکتا ہے
وہ رحیم و کریم اور صادق ہے
رحم دل اور قرض دینے والا آدمی، سعادت مند ہے
اس کی صداقت ہمیشہ قائم رہے گی۔‘‘
(زبور ۱۱۲۔ ۴ اور ۹)
حضرت سلیمانؑ کی پیشن گوئی
’’میرا محبوب سرخ و سفید ہے
وہ دس ہزار میں ممتاز ہے
اس کا منہ ازبس شیریں ہے ہاں وہ سراپا عشق انگیز ہے۔‘‘
حضرت یسعیاہؑ کی پیشن گوئی
’’اور پھر وہ کتاب کسی ناخواندہ کو دیں اور کہیں اس کو پڑھ اور وہ کہے گا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا۔‘‘
(یسعیا باب ۲۹۔۱۲)
حضرت زکریاؑ کی پیشن گوئی
’’دیکھ تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے وہ صادق ہے اور نجات اس کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
(زکریا۔ باب ۹۔۹)
حضرت عیسیٰ ؑ کی پیشن گوئی
’’جب بنی آدم اپنے جلال میں آئے گا اور سب فرشتے اس کے ساتھ آئینگے تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا اور سب قومیں اس کے سامنے جمع ہو جائیں گی۔‘‘
(متی۔ باب ۲۵۔۳۱)
’’اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے۔‘‘
(یوحنا۔ باب ۱۶۔۳۰)
’’اور بہت تھوڑی مدت باقی ہے کہ آنے والا آئے گا اور دیر نہ کرے گا اور میرا راستباز بندہ ایمان سے جیتا رہے گا۔‘‘
(عبرانیوں۔ باب ۱۰۔ ۳۷)
’’تمام انبیاء سوائے اس رسول کے آچکے ہیں جو میرے بعد آئے گا کیونکہ اللہ اس امر کا ارادہ رکھتا ہے کہ میں اس کا راستہ صاف کروں۔‘‘
(انجیل برناباس۔ باب ۳۶۔ ۵تا۶)
’’بے شک وہ محمد رسول اللہ ہے اور جب وہ دنیا میں آئے گا تو اس اصلی رحمت کے وسیلے سے جس کو وہ لائے گا انسانوں کے درمیان نیک اعمال کا ذریعہ بنے گا۔‘‘
(انجیل برناباس۔ باب ۱۶۳۔۶)
’’اور یوں جب اس نے عمل کا ارادہ کیا تو سب چیزوں سے پہلے اپنے رسول کی روح پیدا کی، وہ رسول جس کے سبب سے تمام چیزوں کے پیدا کرنے کا قصد کیا تا کہ مخلوقات خوشی اور اللہ سے برکت پائے اور اس کا رسول اس کے اخلاق سے خوش ہو۔‘‘
(انجیل برناباس۔ باب ۴۳۔۱،۹)
’’درحقیقت وہ اسماعیل کی نسل سے آئے گا اور یہ وعدہ اسماعیل کے ساتھ کیا گیا تھا نہ کہ اسحٰق کے ساتھ۔‘‘
(انجیل برناباس باب ۱۴۳۔ ۱۶تا ۱۸)
’’مگر میری تسلی اس رسول کے آنے میں ہے جو میرے بارے میں ہر جھوٹے خیال کو محو کر دے گا اور اس کا ذہن پھیلے گا اور تمام دنیا میں عام ہو جائے گا۔‘‘
(انجیل برناباس۔ باب ۹۷۔۳)
صبر و استقامت
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ:
’’کائنات میں سب سے پہلے میرا نور بنا اور اس نور سے اللہ نے کائنات کی تخلیق کی۔‘‘
اس کا مفہوم یہ ہوا کہ جتنے پیغمبر تشریف لائے سب حضور اکرمﷺ کے نور کا پرتو ہیں پیغمبران کرامؑ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بشارت دی ہے اور آسمانی کتابوں میں حضورﷺ کے آنے کا تذکرہ ہے۔
حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
"سارے نبی میرے بھائی ہیں اور میں کوئی نئی بات نہیں سنا رہا ہوں میں وہی کچھ سنا تا ہوں جو مجھ سے پہلے میرے بھائی پیغمبروں نے کہا ہے"۔
میرے بھائی پیغمبروں نے کہا ہے تمام پیغمبران کی تعلیم یہ ہے کہ:
’’اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے، وہی عبادت اور پرستش کے لائق ہے، اس کے علاوہ سارے معبود باطل ہیں۔‘‘
پیغمبروں نے جن حالات میں زندگی گزاری ہے اور تبلیغ میں جو اذیتیں برداشت کی ہیں یا اللہ تعالیٰ نے ان کو جو صبر و استقامت دیا ہے۔ وہ سب حضور اکرمﷺ میں موجود ہے۔
حضور اکرمﷺ کی سیرت و رسالت میں تمام پیغمبروں کی شان نظر آتی ہے جس طرح رسول اللہﷺ پوری کائنات کی ہر ہر مخلوق کے لئے رحمت اللعالمین ہیں اس طرح انبیاء کرامؑ کے لئے بھی رحمت ہیں۔ محمد رسول اللہﷺ نے حضرت نوحؑ کی طرح لوگوں کے لئے خفیہ اعلانیہ خلوت اور جلوت میں گزرگاہوں، پہاڑوں اور میدانوں میں وحدانیت کی تبلیغ فرمائی۔
محمد رسول اللہﷺ نے حضرت ابراہیمؑ کی طرح نافرمان قوم سے علیحدگی اختیار کی اور ہجرت کی۔
محمد رسول اللہﷺ ہجرت کی شب حضرت داؤدؑ کی طرح دشمنوں کے نرغہ میں سے باحفاظت نکل گئے۔
محمد رسول اللہﷺ نے حضرت ایوبؑ کی طرح صبر و شکر کے ساتھ گھاٹی میں تین سال گزارے۔
محمدﷺ حضرت یونسؑ کی طرح تین دن غار ثور میں رہے۔
محمدﷺ نے حضرت موسیٰ ؑ کی طرح جنہوں نےبنی اسرائیل کو فرعون مصر کی غلامی سے آزاد کرایا تھا، شمالی عرب کو شاہ قسطنطنیہ سے اور مشرقی عرب کو کسریٰ ایران کی حلقہ غلامی سےاور جنوبی عرب کو شاہ حبش سے نجات دلائی۔
محمدﷺ نے حضرت سلیمانؑ کی طرح مدینے میں خدا کا گھر بنایا۔
محمدﷺ نے حضرت یوسفؑ کی طرح اپنے ایذا رسا بھائیوں کے لئے نجد سے غلہ بھجوایا اور آخر میں فتح مکہ کے دن ان پر احسان فرمایا۔
آپﷺ حضرت مسیح کی طرح جھٹلائے اور ستائے گئے لیکن آپ نے صبر و شکر کیا۔
محمدﷺ نے حضرت یحییٰ کی طرح بیابانوں، قریوں، بستیوں اور شہروں میں اللہ کا پیغام پہنچایا۔
رسول اللہﷺ کے بارے میں قرآن میں بشارتیں
’’جب ابراہیم اور اسماعیل بیت اللہ کی بنیادوں کو بلند کر رہے تھے تب وہ دعا کر رہے تھے کہ اے سمیع و علیم! اس عمارت کو قبول فرما اور اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنا فرماں بردار رکھ اور ہماری رعیت کو بھی فرمانبردار رعیت ہی میں سے ایک عظیم الشان رسول مبعوث فرما جو پڑھے ان پر تیری آیتیں اور سکھائے ان کو کتاب اور حکمت کی باتیں اور ان کو سنوارے تو ہی ہے اصل زبردست حکمت والا۔‘‘
(سورہ بقرہ۔ ۱۲۷،۱۲۹)
’’عیسیٰ بن مریم نے کہا، اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، میں تورات کی جو مجھ سے پہلے آئی ہے تصدیق کرتا ہوں اور میں اس رسول کی تم کو بشارت دیتا ہوں جو میرے بعد آئے گا اس کا نام ’’احمد‘‘ ہو گا۔‘‘
(سورہ الصف۔ ۶)
’’اور جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد کیا کہ میں تم کو جو کتاب اور حکمت عطا کروں اور پھر تمہارے پاس وہ پیغمبر آئے جو ان کتابوں کی تصدیق کرتا ہوں جو تمہارے پاس ہیں تم ضرور اس پر ایمان لانا او راس کی مدد کرنا۔ اللہ نے فرمایا۔ کیا تم اس عہد کا اقرار کرتے ہو اور اس کو میرا اہم عہد سمجھ کر قبول کرتے ہو؟ تو انہوں نے کہا بے شک ہم اقرار کرتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا اب تم اس عہد پر گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ بنتا ہوں۔‘‘
(سورہ آل عمران۔ ۸۱)
’’(پس میں ان کے لئے رحمت لکھ دوں گا) جو رسول کی پیروی کریں گے وہ نبی امی ہو گا اور اس کے ظہور کی خبر وہ اپنے یہاں تورات اور انجیل میں بھی پائیں گے، وہ انہیں نیکی کا حکم دے گا اور برائی سے روکے گا اور پسندیدہ چیزیں حلال کریں گے اور گندی چیزیں حرام ٹہرائے گا اور اس بوجھ سے نجات دے گا جس کے تلے وہ دبے ہونگے اور ان پھندوں سے نکالے گا جن میں گرفتار ہونگے تو جو لوگ اس پر ایمان لائے اس کے مخالفوں کے لئے روک ہوئے (راہ حق میں) اس کی مدد کی اور اس روشنی کے پیچھے ہوئے جو اس کے ساتھ بھیجی گئی ہے (یعنی قرآن) سو وہی ہیں جو کامیابی پانے والے اے پیغمبر! تم لوگوں سے کہو، اے لوگو! میں تم سب کے لئے اللہ کا رسول ہوں اور وہ خدا ہے اور آسمانوں کی اور زمینوں کی بادشاہت اسی کیلئے ہے کوئی معبود نہیں مگر وہ ایک ذات وہی جلاتا ہے وہی مارتا ہے پس اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول اور نبی امی پر جو اللہ اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے۔ اس کی پیروی کرو تا کہ کامیابی کی راہ تم پر کھل جائے۔‘‘
(سورہ الاعراف۔ ۱۵۷۔۱۵۸)
’’اور پھر کیا حال ہو گا اس دن جبکہ ہم ہر ایک امت میں سے ان پر ایک گواہ طلب کرینگے اور ہم تم کو ان سب پر گواہ بنائیں گے تو جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اور رسول کی نافرمانی کی وہ اس دن یہ پسند کرینگے کہ کاش وہ (دھنس جائیں اور) زمین ان کے اوپر برابر ہو جائے۔ اور اس دن یہ اللہ سے کوئی بات بھی پوشیدہ نہ رکھ سکیں گے۔‘‘
(سورۃ النساء۔ ۴۱، ۴۲)
’’محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ (صحابہ) ان کے ساتھ ہیں۔ وہ منکروں پر سخت ہیں اور آپس میں نرم خو ہیں تو ان کو دیکھے گا جھکنے والے سجدہ کرنے والے اور اس طریقہ سے خدا کے فضل اور اس کی رضا کے خواہشمند ہیں۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ ان کے چہروں پر سجدے کے نشانات ہیں۔ تورات اور انجیل میں ان کا ذکر اسی طرح ہے۔‘‘
(سورۃ فتح۔ ۲۹)
سیدنا حضورﷺ کی نبوت و رسالت کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ نبیﷺ ساری دنیا کے لئے واحد مذہب ’’اسلام‘‘
لے کر تشریف لائے۔
’’ہم نے تجھے تمام انسانوں کیلئے بشارت پہنچانے والا، ڈر سنانے والا بنا کر دنیا میں رسول بنایا ہے۔‘‘
(سورہ سبا۔ ۲۸)
’’خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول کو روشن دلائل اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ وہ سب دینوں پر غلبہ حاصل کرے۔‘‘
(سورہ الصف۔ ۹)
’’ہم نے تجھے تمام اہل عالم کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
(سورۃ انبیاء۔ ۱۰۷)
’’اللہ کا رسول بہترین نمونہ ہے۔ ان سب کے لئے جو خدا اور قیامت پر ایمان رکھتے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کیا کرتے ہیں۔‘‘
(سورۃ احزاب۔ ۲۱)
’’ہم نے تیرے ذکر کو رفعت عطا کی۔‘‘
(سورہ النشراح۔ ۴)
’’آپ خلق عظیم کے مالک ہیں۔‘‘
(سورۃ قلم۔ ۴)
’’جیسا بھیجا ہم نے تم میں رسول تم ہی میں سے، پڑھتا تمہارے پاس آیتیں ہماری اور تم کو سنوارتا اور سکھاتا کتاب اور تحقیق (حکمت )اور سکھاتا تم کو جو تم نہ جانتے تھے۔‘‘
(سورۃ البقرہ۔ ۱۵۱)
’’محمد باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں لیکن رسول ہے اللہ کا اور مہر سب نبیوں پر۔‘‘
(سورۃ احزاب۔۴۰)
’’اور یقیناً یہ جہانوں کے پروردگار کا اتارا ہوا ہے۔ اس کو روح الامین (جبرائیل )نے تیرے قلب پر اتارا تا کہ تو گمراہوں کو ڈرانے والوں میں سے ہو، یہ ہے صاف عربی زبان میں اور اس کا ذکر پہلی کتابوں میں موجود ہے۔‘‘
(سورۃ الشعراء۔ ۱۹۲۔۱۹۶)
’’اور اللہ نے نازل کی تجھ پر کتاب اور کام کی بات اور تجھ کو سکھایا جو تو نہ جان سکتا اور اللہ کا فضل تجھ پر بڑا ہے۔‘‘
(سورۃ النساء۔ ۱۱۳)
’’یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ تجھے نرم خو بنایا۔ اگر تو درشت طبع، سخت دل ہوتا تو لوگ تیرے پاس سے بھاگ جاتے۔‘‘
(سورۃ آل عمران۔ ۱۵۹)
’’میری نماز، میری قربانی، میری زندگی، میری موت، اللہ ہی کے لئے ہے۔ جو تمام عالم کا پالنے والا ہے۔ اس کا کوئی بھی شریک نہیں۔ مجھے ایسا ہی بتانے کا حکم ملا ہے اور میں سب سے پہلے اس ہی حکم کے فرمانبرداروں میں سے ہوں۔‘‘
(سورۃ انعام ۔ ۱۶۲، ۱۶۳)
’’تو کہہ اگر تم کو تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور برادری اور مال جو تم نے جمع کیا ہے۔ اور تجارت جس کے خسارہ کا تم کو ڈر لگا رہتا ہے اور وہ محل جس میں بسنا تم کو اچھا معلوم ہوتا ہے وہ سب سے زیادہ پیارے ہیں خدا اور رسول سے اور راہ خدا میں جہاد کرنے سے، تب تم منتظر رہو کہ خدا تمہارے لئے اپنا کوئی حکم دے اور اللہ راہ نہیں دیتا نافرمان لوگوں کو۔‘‘
(سورہ توبہ۔ ۲۴)
’’کیا ہم نے تیرے سینے کو نہیں کھول دیا اور اتار رکھا تجھ سے بوجھ تیرا۔‘‘
(سورہ انشراح۔۱۔۲)
’’تیرا رب تجھ کو اتنا کچھ دے گا کہ تو خوش ہو جائے گا۔‘‘
(سورہ الضحیٰ۔ ۵)
’’ہم نے تجھ کو کوثر عطا کیا۔‘‘
(سورہ کوثر۔۱)
’’جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ سے بیعت کرتے ہیں، اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے اوپر ہے۔‘‘
(سورہ فتح۔۹)
’’تمہارے پاس ایک رسول آ گیا ہے جو تم ہی میں سے ہے تمہارا رنج و کوفت میں پڑنا اس پر بہت شاق گزرتا ہے۔ وہ تمہاری بھلائی کا بڑا ہی خواہشمند ہے۔ وہ ایمان والوں کے لئے شفقت رکھنے والا رحمت والا ہے۔(اے پیغمبر) اگر اس پر بھی یہ لوگ سرتابی کریں تو ان سے کہہ دو میرے لئے اللہ کا سہارا بس کافی ہے۔ کوئی معبود نہیں ہے مگر صرف اس کی ذات۔ میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔‘‘
(سورہ توبہ: ۱۲۸۔۱۲۹)
رسول اکرمﷺ پر وحی کی ابتدا سچے خوابوں سے ہوئی اس کے بعد آپ نے کئی کئی دن غار حرا میں قیام فرمایا، رمضان المبارک کے مہینے میں جب آپ کی عمر شریف چالیس سال چھ ماہ تھی پردہ غیب سے حضرت جبرائیلؑ ظاہر ہوئے اور سورہ علق کی پانچ آیات تلاوت کیں۔
’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیاo
ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کیo
پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہےo
جس نے قلم سے علم سکھایا۔
انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھاo‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔