Topics

حضرت موسیٰ علیہ السلام

مصر کے بادشاہ فرعون نے خواب دیکھا اور نجومیوں نے تعبیر بتائی کہ ایک اسرائیلی لڑکے کے ہاتھوں تیری سلطنت ختم ہو جائے گی، فرعون نے حکم دیا کہ میری سلطنت میں اسرائیلی گھرانوں میں کوئی بھی لڑکا پیدا ہو اسے قتل کر دیا جائے اور اس کام کے لئے ایک خصوصی عملہ مامور کر دیا گیا۔

جس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی ہر طرف جاسوسوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد عمران، والدہ یوکبد اور دیگر اہل خاندان سخت پریشان تھے، تین مہینے تک انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چھپا کر رکھا لیکن زیادہ عرصہ تک بچے کو شاہی جاسوسوں کی عقابی نظروں سے چھپا کر رکھنا ممکن نہیں تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے دل میں خیال آیا کہ تابوت کی طرح ایک صندوق بناؤ اس پر لال روغن کی پالش کرو اور بچے کو اس صندوق میں رکھ کر دریائے نیل کے بہاؤ پر چھوڑ دو، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن کی ڈیوٹی لگی کہ دریا کے کنارے کنارے چل کر صندوق کو دیکھتی رہیں، صندوق بہتا ہوا محل کے تالاب(Swimming Pool) میں پہنچ گیا وہاں ملکہ اور خادمائیں لطف اندوز ہو رہی تھیں کہ صندوق پر ملکہ کی نظر پڑی۔ اس نے کنیزوں کو حکم دیا کہ صندوق کو تالاب میں سے نکال لاؤ۔ صندوق کھولا گیا تو اس میں ایک حسین اور تندرست بچہ آرام سے لیٹا ہوا انگوٹھا چوس رہا تھا، ملکہ بہت خوش ہوئی اس کی آنکھوں میں ممتا اتر آئی، شفقت و محبت سے بچے کو گود میں لے لیا، ملکہ نے سوچا کہ اس بچے کو بیٹا بنا کر پالنا چاہئے، محل میں کسی نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ بچہ بادشاہ کی سلطنت کو ختم کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے، فرعون کے دل میں بھی یہ خیال آیا ایسا نہ ہو کہ یہی بچہ اسرائیل کا وہ لڑکا ہو جس کے بارے میں نجومیوں نے پیشن گوئی کی تھی۔ لیکن فرعون کی منظور نظر بیوی نے کہا یہ بھی تو ہو سکتا ہے یہ بچہ ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنے یا ہم اس کو اپنا بیٹا بنا لیں ملکہ نے اس بچے کا نام موسیٰ (موسیٰ کے معنی ہیں وہ شخص جو پانی سے نکالا گیا ہو) رکھا۔ 

آیا کا انتظام

ملکہ نے بچے کو دودھ پلانے کا کام شاہی دائیوں کے سپرد کر دیا لیکن بچے نے کسی کا دودھ نہیں پیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن نے محل میں جا کر ملکہ سے کہا کہ میں ایک بہت اچھی آیا کا انتظام کر سکتی ہوں، نہایت صحت مند اور خوبصورت عورت ہے، بچے کی اچھی طرح نگہداشت کرے گی اور نہایت اعلیٰ پرورش کرے گی۔ ملکہ نے کہا اسے حاضر کرو، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن اپنی والدہ کو ساتھ لے گئیں اور ملکہ کے سامنے پیش کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس خاتون کا دودھ پی لیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو دایہ مقرر کر دیا گیا۔

’’اور(تجھے معلوم ہے) ہم تجھ پر پہلے بھی ایک مرتبہ احسان کر چکے ہیں؟ ہم تجھے بتاتے ہیں، اس وقت کیا ہوا تھا جب ہم نے تیری ماں کے دل میں یہ بات ڈالی تھی، ہم نے اسے سمجھایا تھا کہ بچے کو ایک صندوق میں ڈال دے اور صندوق کو دریا میں چھوڑ دے، دریا اسے کنارے پر دھکیل دے گا، پھر اسے اٹھا لے گا جو میرا دشمن ہے نیز اس بچے کا بھی دشمن ہے اور ہم نے اپنے فضل خاص سے تجھ پر محبت کا سایہ ڈال دیا تھا اور یہ اس لئے تھا کہ ہم چاہتے تھے کہ تو ہماری نگرانی میں پرورش پائے، تیری بہن جب وہاں سے گزری تو اس نے کہا میں تمہیں ایسی عورت بتلا دوں جو اسے پالے پوسے؟ اور اس طرح ہم نے تجھے پھر تیری ماں کی گود میں لوٹا دیا تا کہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور غمگین نہ ہو۔‘‘

(سورۃ طٰحہ: ۳۷۔۴۰)

حضرت موسیٰ علیہ السلام جب جوان ہوئے تو نہایت قوی البحثہ اور بہادر انسان تھے، انہیں یہ بھی علم ہو گیا تھا کہ وہ اسرائیلی ہیں اور مصری خاندان سے ان کا کوئی رشتہ نہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب دیکھا کہ اسرائیلی نہایت ذلت اور رسوائی اور غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور فرعون کے عمال ان پر سخت مظالم ڈھاتے ہیں تو ان کی تمام ہمدردیاں بنی اسرائیل کے ساتھ ہو گئیں۔

بیگار

حضرت موسیٰ علیہ السلام کہیں جا رہے تھے کہ دیکھا ایک مصری ایک اسرائیلی کو بیگار کے لئے گھسیٹ رہا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر اسرائیلی نے مدد کے لئے پکارا، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مصری کو روکا اور کہا کہ نہایت بزدلانہ اور ظالمانہ حرکت ہے۔ مگر مصری نے ان کی بات نہیں سنی، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مصری کے سر پر ایک طمانچہ رسید کر دیا، مصری اس چپت کی چوٹ کو برداشت نہ کر سکا اور مر گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ارادہ اسے قتل کرنے کا نہیں تھا افسوس و ندامت کے ساتھ اللہ سے کہا:

’’اللہ تعالیٰ جو کچھ بھی ہوا نادانستگی میں ہوا، میں تجھ سے مغفرت کا طلبگار ہوں۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے ان کی غلطی معاف کر دی۔

دن دھاڑے مصری کے قتل کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور قاتل کی تلاش شروع ہو گئی۔ دوسرے دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر اسی اسرائیلی اور ایک مصری کو دست و گریباں دیکھا، اسرائیلی نے آپ کو دیکھ کر پھر مدد کے لئے فریاد کی، حضرت موسیٰ علیہ السلام مصری کو باز رکھنے کے لئے آگے بڑھے لیکن ساتھ ہی ناگواری سے اسرائیلی سے کہا:

’’تو بھی بلا شبہ کھلا ہوا گمراہ ہے، خواہ مخواہ جھگڑا مول لے کر داد و فریاد کرتا رہتا ہے۔‘‘

اسرائیلی ڈر گیا اور سمجھا موسیٰ مجھے مار دیں گے، وہ بولا:

’’جس طرح تو نے کل ایک مصری کو ہلاک کر دیا تھا اسی طرح آج مجھے بھی قتل کرنا چاہتا ہے۔‘‘

یہ خبر فرعون تک پہنچ گئی کہ مصری کا قاتل موسیٰ ہے۔ فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام خاموشی کے ساتھ شہر چھوڑ کر مدین(مدین ایک قبیلے کا نام ہے جو حضرت ابراہیم کے فرزند ’’مدین‘‘ کے نام پر تھا۔ یہ بیٹا حضرت ابراہیمؑ کی تیسری بیوی قطورہؓ سے تھا۔ حضرت شعیب بھی اسی قبیلے سے تھے۔ جس خطہ زمین پر یہ قبیلہ آباد تھا اس کا نام مدین پڑ گیا۔) روانہ ہو گئے مدین پہنچ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ ایک کنویں پر پانی پینے کیلئے جانوروں اور آدمیوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے دو لڑکیاں اپنے جانور لئے دور کھڑی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے پوچھا کہ تم یہاں کیوں کھڑی ہو؟ لڑکیوں نے بتلایا کہ:

’’ہم کمزور ہیں، یہ طاقتور ہیں، زبردستی ہمیں پیچھے ہٹا دیتے ہیں، ہمارے والد بہت بوڑھے ہیں وہ ان سے لڑ نہیں سکتے، ہم انتظار کر رہے ہیں کہ سب چلے جائیں تو ہم اپنے جانوروں کو پانی پلائیں۔‘‘

حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یہ زیادتی برداشت نہ ہوئی بھیڑ کو چیرتے ہوئے کنویں پر پہنچ گئے اور کنویں کا بڑا ڈول تنہا کھینچ کر لڑکیوں کے مویشیوں کو پانی پلایا، لڑکیوں نے اپنے گھر جا کر اپنے والد حضرت شعیبؑ کو سارا قصہ سنایا، حضرت شعیبؑ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے پاس بلایا خاطر تواضع کی اور حالات پوچھے۔ پیدائش سے لے کر مدین پہنچنے تک کے تمام واقعات سننے کے بعد حضرت شعیبؑ نے فرمایا:

’’خدا کا شکر ادا کرو کہ تمہیں ان ظالموں سے نجات مل گئی، اب کوئی خوف نہ کرو یہاں میرے پاس رہو۔‘‘

بہادری اور شرافت

لڑکیوں میں سے ایک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہادری اور شرافت کی تعریف کی اور باپ کو مشورہ دیا کہ اس مہمان کو مویشی چرانے اور پانی پلانے کے لئے رکھ لیجئے۔ حضرت شعیبؑ نے اس مشورہ کو قبول کر لیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا:

’’اگر تم آٹھ سال تک میرے پاس رہ کر میری بکریاں چراؤ تو میں اپنی اس بیٹی کی شادی تم سے کردوں گا اور اگر دو سال اور رہو تو یہی لڑکی کا مہر ہو گا۔‘‘

حضرت موسیٰ علیہ السلام وہاں ٹھہر گئے اور بکریوں کی دیکھ بھال شروع کر دی، دس سال کی مدت پوری ہونے پر حضرت شعیبؑ نے اپنی بیٹی کی شادی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کر دی۔

ایک روز حضرت موسیٰ علیہ السلام بکریاں چراتے مدین سے بہت دور نکل گئے۔ رات ٹھنڈی تھی، اہل خانہ ساتھ تھے لہٰذا آگ کی ضرورت پیش آئی سامنے کوہ سینا وادی میں ایک شعلہ چمکتا ہوا نظر آیا۔

’’پھر موسیٰ علیہ السلام نے اپنی بیوی سے کہا تم یہاں ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے، شاید اس میں سے کوئی چنگاری تمہارے لئے لا سکوں یا وہاں الاؤ پر کسی رہبر کو پا سکوں۔‘‘

(سورۃ طہٰ۔ ۱۰)

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ عجیب آگ ہے درخت پر روشنی نظر آتی ہے مگر نہ درخت کو جلاتی ہے نہ بجھتی ہے۔ یہ سوچتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام جوں جوں آگے بڑھتے جاتے آگ اور دور ہو جاتی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خوف پیدا ہوا اور واپسی کا ارادہ کیا، مڑے ہی تھے کہ آگ قریب آ گئی اور آواز آئی:

’’اے موسیٰ! میں ہوں، اللہ۔ پروردگار جہانوں کا پس اپنی جوتی اتار طویٰ کی مقدس وادی میں کھڑا ہے اور دیکھ میں نے تجھے اپنی رسالت کیلئے چن لیا ہے، پس جو وحی کی جاتی ہے اس کو کان لگا کر سن۔‘‘

(سورۃ طٰہ: ۱۲۔۱۳)

لاٹھی

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں بکریاں چرانے کی لاٹھی تھی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’اسے زمین پر ڈال دے۔‘‘

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ارشاد تعمیل کی، لاٹھی اژدھا بن کر دوڑنے لگی، پھر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا :

’’اسے اٹھا لے۔‘‘

تعمیل حکم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بلا خوف اور خطر اژدھے کو پکڑ لیا، اژدھا پھر لاٹھی بن گیا پھر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ’’اپنا ہاتھ بغل میں رکھ کر نکال۔‘‘

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایسا ہی کیا ہاتھ بے حد روشن اور چمکتا ہوا نکلا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’یہ ہماری طرف سے دو نشانیاں عطا ہوئی ہیں۔ اب جا فرعون اور اس کی قوم کو راہ ہدایت دکھا۔‘‘

حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر پہنچے اور اپنے بھائی حضرت ہارونؑ کو لے کر فرعون کے دربار میں حاضر ہوئے، آپ نے فرعون سے کہا:

’’ہمیں اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں اور رسول بنا کر بھیجا ہے ہم تم سے دو باتوں کا مطالبہ کرتے ہیں ایک یہ کہ تو خدا پر ایمان لے آ، اور کسی کو اس کے کاموں میں شریک نہ ٹھہرا۔ دوسرے یہ کہ بنی اسرائیل پر ظلم کرنا چھوڑ دے اور انہیں آزاد کر دے۔‘‘


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔