Topics

کائنات میں کروڑوں کہکشائیں

’’اللہ روشنی ہے آسمانوں کی اور زمین کی۔ اس نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق، جس میں ایک چراغ، چراغ شیشے میں، شیشہ جیسے تارہ جھلمل کرتا، تیل جلتا ہے اس میں برکت والے درخت کا اور وہ درخت زیتون ہے۔ نہ سورج نکلنے کی طرف اور نہ ڈوبنے کی طرف لگتا ہے کہ اس کا تیل بھڑک اٹھے، ابھی نہ لگی ہے اس کوآگ نور علی نور۔ اللہ رہنمائی کرتا ہے اپنے نور کی جس کو چاہے اور اللہ مثالوں سے لوگوں کو سمجھاتا ہے اور ہر شئے اللہ کے علم میں ہے۔‘‘

(سورہ النور۔ ۳۵)

تین روحانی علوم

روحانی علوم کی تقسیم تین باب پر مشتمل ہے۔ ایک باب انفرادی زندگی کے اعمال و حرکات اور زندگی کی ساخت اور تخلیقی فارمولوں کے اوپر مشتمل ہے۔ دوسرا باب نوعی تخلیقی فارمولوں پر مشتمل ہے اور تیسرا باب خالق اکبر اللہ وحدہ لا شریک کا تعارف ہے۔ 

انسان یا کائنات میں موجود کوئی بھی نوع یا کسی بھی نوع کا کوئی فرد زندگی گزارنے کیلئے دو رخوں کا محتاج ہے۔ ایک رخ کو ہم بیداری اور دوسرے رخ کو خواب کہتے ہیں۔ بیداری اور خواب دونوں کا تذکرہ قرآن پاک میں لیل و نہار کے نام سے کیا گیا ہے۔ قرآن پاک کی ان آیات میں تفکر کیا جائے جن میں لیل و نہار کا تذکرہ آیا ہے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حواس ایک ہیں۔ حواس میں صرف رد و بدل ہوتا رہتا ہے یہی حواس جب رات کے پیٹرن میں داخل ہوتے ہیں تو خواب بن جاتے ہیں اور یہی حواس جب دن کے پیٹرن میں داخل ہوتے ہیں تو بیداری بن جاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’ہم رات کو دن میں داخل کرتے ہیں اور رات کو دن میں سے نکال لیتے ہیں ہم رات کو دن پر سے ادھیڑ لیتے ہیں اور دن کو رات پر سے ادھیڑ لیتے ہیں۔‘‘

مفہوم یہ ہے کہ انسانی حواس یکے بعد دیگرے رات دن میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ دن میں داخل ہوتے ہیں تو حواس پابند ہو جاتے ہیں اور رات میں داخل ہوتے ہیں تو حواس کے اوپر پابندی نہیں رہتی۔ جب ہم علم غیب یا غیب کی دنیا کا تذکرہ کرتے ہیں تو دراصل رات کے حواس کا  تذکرہ کرتے ہیں۔

’’ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور چالیس راتوں میں پورا کیا۔‘‘

غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر چالیس دن اور چالیس راتیں مقیم رہے ایسا نہیں ہوا کہ رات کو کوہ طور پر چلے جاتے ہوں اور دن کو نیچے اتر آتے ہوں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ چالیس دن اور چالیس رات حضرت موسیٰ علیہ السلام رات کے حواس میں رہے۔

’’پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک۔‘‘

غیب کا انکشاف

اس کا یہ مطلب ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے اوپر غیب کی دنیا کا انکشاف رات کے حواس میں ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اپنی قربت رات کے حواس میں عطا فرمائی۔

ہر علم اس کی حیثیت اکتسابی ہو یا حضوری ہو تفکر پر قائم ہے جیسے جیسے تحقیق و تلاش کا دائرہ وسیع ہوتا رہتا ہے نئے نئے فلسفے وجود میں آتے رہتے ہیں۔ سائنس کی ترقی میں یہی عمل کارفرما ہے۔ ہر دانشور تفکر کے ذریعے کسی نتیجہ پر پہنچتا ہے جس کی تقلید کرتے ہوئے اس کے بعد آنے والے دانشور اس علم کی سطح کو پھیلانے میں مصروف ہو جاتے ہیں، جیسے جیسے تشریحات کو ذہن قبول کرتا ہے یا ان ترغیبات اور تشبیہات سے شعور آشنا ہوتا ہے شعور گہرائی میں سفر کرنے لگتا ہے، قرآن پاک نے نوع انسانی کو مثالیں دے کر علوم سیکھنے کی طرف متوجہ کیا ہے۔

ہر علم کی تعریف یہ ہے کہ اس کی دو سطح ہیں، ایک ظاہری اور باطنی۔ ہر علم ورق کی طرح ہے۔ ورق کے دو صفحے ہوتے ہیں۔ علم حضوری کے شعبے بھی ورق کی طرح ہیں پہلا صفحہ تجلی کا عکس ہے، دوسرے صفحے پر رموز و مصلحتیں نقش ہیں۔ تیسرے صفحے پر رموز اور اسرار کی تشریحات ہیں۔ چوتھے صفحے پر کائناتی نقوش ہیں پانچویں صفحے پر احکامات کا ریکارڈ ہے، چھٹے صفحےپر اعمال کی تفصیلات ہیں۔

ساری کائنات بشمول تجلی لوح محفوظ عرش و کرسی عالم ارواح، سماوات برزخ، عالم ناسوت اعراف، حشر نشر، یوم حساب، جنت و دوزخ، ابد اور ابد الآباد کا علم تین اوراق میں محفوظ ہے اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو ان اوراق کا علم منتقل کر دیتے ہیں تو بندہ احکام الٰہی کے تحت مخصوص بندہ بن جاتا ہے۔

کلوننگ

حضرت خضرؑ کی صف میں تکوینی امور کے حامل بندوں میں سے ایک مقرب بندے حضرت تاج الدین بابا ہیں۔ حضرت تاج الدین بابا ناگ پوریؒ کے نواسے حضور قلندر بابا اولیاءؒ کہتے ہیں:

’’حالت استغراق میں نانا کی آنکھیں کچھ جھکی رہتی تھیں۔ حیات خان اکثر ان کی نیم باز آنکھیں عجیب ذوق و شوق سے دیکھتا تھا۔

ایک مرتبہ استغراق کی حالت میں حیات خان نے مہاراجہ رگھوراؤ کو بلایا اور کہنے لگا اس پتے کو دیکھو، مہاراجہ نے دیکھا کہ جس پتے کی طرف اشارہ کیا گیا تھا اس میں سے ٹانگیں، چہرے کے خدوخال اور چھوٹی چھوٹی آنکھیں رونما ہو رہی تھیں، یہ پتہ تقریباً تین انچ لمبا ہو گا، یکایک میری نظر برابر والے پتے پر جا پڑی اس میں بھی ویسا ہی تغیر ہو رہا تھا، یہ دونوں پتے ایک دوسرے کے پیچھے چلنے لگے ایک دو منٹ میں ان کے خدوخال اتنے بدلے کہ پتے کی کوئی شباہت ان میں باقی نہیں تھی۔ وہ درخت کے تنے کی طرف جا رہے تھے اور نانا تاج الدینؒ کی نیم وا آنکھیں ان پر جمی ہوئی تھیں۔ جب ناناؒ سے اس کی علمی توجیہہ معلوم کی تو فرمایا:

’’درخت کے اندر زندگی کے سارے ٹکڑے جڑے ہوئے ہیں، دیکھنا، سننا، سمجھنا، جنبش کرنا یہ سب ٹکڑے اس درخت کے اندر جھانکنے سے نظر آتے ہیں، اس کے ہر پتے میں سچ مچ کا منہ، سچ مچ کے ہاتھ پیر ہیں، فرق اتنا ہے کہ جب تک پتہ دوسری زندگی سے ٹکراتا نہیں اس کے اندر عام لوگ یہ نیرنگ نہیں دیکھ سکتے اور جب کوئی پتہ میری زندگی سے گلے ملتا ہے تو جیتا جاگتا کیڑا بن جاتا ہے۔ یہ سمجھ کہ آنکھ سے بھی گلے ملتے ہیں۔ یاد رکھ زندگی سے زندگی بنتی ہے اور زندگی، زندگی میں سماتی ہے۔‘‘

حضرت تاج الدین باباؒ نے فرمایا:

’’جب کوئی پتہ میری زندگی سے گلے ملتا ہے تو جیتا جاگتا کیڑا بن جاتا ہے۔‘‘یہ کلوننگ کا فارمولا بیان کیا ہے، یہ بات انہوں نے قلندر بابا اولیاءؒ کے مشاہدے کے مطابق ۱۹۱۶ء میں کہی تھی۔

سائنسدانوں نے کلوننگ کے بارے میں اکیاسی (۸۱) سال بعد ۱۹۹۳ء میں انکشاف کیا۔ سائنس کی تحقیق کے مطابق علوم تین عنوانات پر قائم ہیں۔

۱۔ طبیعیات (Physics)

۲۔ نفسیات (Psychology)

۳۔ مابعد النفسیات (Parapsychology)

طبیعیات (مادہ) نفسیات (شعور) اور مابعد النفیسات (لاشعور) سائنس نے یہ جان لیا ہے کہ عنصر چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا ہو اس کے اوپر روشنیوں کا غلاف ہوتا ہے اس انعکاس کو سائنس Auraکہتی ہے۔


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔