Topics
اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح ؑ کی دعا قبول کی اور حضرت نوح ؑ کو ہدایت فرمائی کہ وہ ایک کشتی تیار کریں تا کہ مومنین اس عذاب سے محفوظ رہیں جو اللہ کے نافرمانوں پر نازل ہونے والا ہے، حضرت نوح ؑ نے لکڑی کے تختوں سے کشتی بنانا شروع کر دی، انجیل کی روایت کے مطابق کشتی تین سو کیوبٹ لمبی، پچاس کیوبٹ چوڑی اور تیس کیوبٹ اونچی تھی۔ کیوبٹ کیا ہے؟ یعنی کس قسم کی پیمائش ہے اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا، بہرحال محققین نے لمبائی، چوڑائی اور اونچائی کے درمیان جو نسبت بتائی ہے اس کو فٹ میں تبدیل کرنے سے یہ نتیجہ مرتب ہوتا ہے کہ کشی کی لمبائی ۴۵۰ فٹ، چوڑائی ۷۵ فٹ اور اونچائی ۳۰ فٹ تھی۔
انجیل کے بعض قدیم نسخوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کناروں سے کشتی جھکاؤ لیتے ہوئے بتدریج اوپر کی طرف اٹھائی گئی تھی یہاں تک کہ دونوں کنارے ۳۰ فٹ اوپر جا کر اس طرح ایک دوسرے کے قریب آ گئے تھے کہ اوپر محض ایک کیوبٹ جگہ باقی بچی تھی۔
کشتی کا فرش مستطیل تھا یعنی ۷۵ فٹ چوڑا اور ۴۵۰ فٹ لمبا، کشتی کئی منزلہ تھی جدید دور کے ماہرین جہاز سازی کا خیال ہے کہ یہ کشتی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کی ایک بہترین مثال تھی کشتی کو ہوا، طوفانی پانی، بارش، کیچڑ اور مٹی میں پھنسنے سے محفوظ رکھنے کے لئے اس سے بہتر پیمائش ممکن نہیں تھی۔ اس پیمائش سے بنائی گئی کشتی کیسی ہو گی؟ اس کی مثال ۱۸۴۲ میں ایک شخص I.K.Bruvelنے گریٹ بریٹن نامی ایک جہاز بنایا تھا جو کشتی نوح کی پیمائش رکھتا تھا۔ جس نے سینکڑوں کامیاب سمندری سفر کئے اور بے شمار سمندری طوفانوں کا مقابلہ کامیابی کے ساتھ کیا۔ آج بھی بڑے بڑے آئل ٹینکر اسی طریقہ پر بنائے جا رہے ہیں۔
سورۃ یٰسین کی آیت نمبر ۴۱ سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اس سے پہلے انسان اس بات سے واقف نہ تھا کہ دریاؤں اور سمندروں کو کس طرح عبور کیا جائے۔ حضرت نوح ؑ کے دور میں تیار کی جانے والی یہ کشتی نوع انسانی کی پہلی کشتی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت نوحؑ کو یہ علم عطا کیا اور آپ نے آج سے ہزاروں سال قبل جو کشتی تیار کی وہ ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کا شاہکار تھی ایسی اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی جو آج بھی کار آمد ہے اور یہ فن نوع انسانی کی اگلی نسلوں کو منتقل ہوتا رہا آج بھی موجود ہے اور آئندہ بھی منتقل ہوتا رہے گا۔
حضرت نوحؑ کو کشتی کی تیاری میں مصروف دیکھ کر کفار نے تمسخر اڑایا، جب کبھی ان کا ادھر سے گذر ہوتا تو وہ آوازیں کستے اور غرور و تکبر سے گستاخی کے مرتکب ہوتے، آخر سفینۂ نوح تیار ہو گیا، اللہ کے عذاب کا وقت قریب آیا تو حضرت نوح ؑ نے پہلی علامت یہ دیکھی کہ پانی ابلنا شروع ہو گیا ہے۔
حضرت نوحؑ کو حکم ہوا کہ اپنے ماننے والوں کے ہمراہ کشتی میں سوار ہو جائیں اور ہر جاندار کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لیں۔ جب وحی الٰہی کی تعمیل ہو گئی تو حکم ہوا:
’’اے پانی! برسنا شروع ہو جا۔‘‘
اور زمین کے چشموں کو حکم دیا گیا کہ:
’’وہ پوری طرح ابل پڑیں۔‘‘
بادو باراں کے اس عظیم طوفان میں کشتی بحفاظت تیرتی رہی، طوفانی ہواؤں اور بارش کا سلسلہ ایک مدت تک جاری رہا یہاں تک کہ تمام منکرین توحید غرق آب ہو گئے اور ’’مکافات عمل‘‘ کے قانون کے مطابق اپنے انجام کو پہنچ گئے۔
نوحؑ کا بیٹا:
حضرت نوحؑ نے طوفانی عذاب کے وقت اپنے بیٹے ’’یام‘‘ کی حفاظت کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اور نوحؑ نے اپنے رب کو پکارا اور کہا کہ اے پروردگار! میرا بیٹا میرے اہل ہی میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو بہترین حاکموں میں سے ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اے نوح! یہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے یہ بدکردار ہے پس تجھ کو ایسا سوال نہ کرنا چاہئے جس کے بارے میں تجھ کو علم نہ ہو، میں بلاشبہ تجھ کو نصیحت کرتا ہوں کہ تو نادانوں میں سے نہ بن۔‘‘
حضرت نوحؑ نے عرض کیا:
’’اے رب! بلاتردد میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے سوال کروں اس بارے میں جس کے متعلق مجھے علم نہ ہو اور اگر تو نے معاف نہیں کیا اور رحم نہیں کیا تو میں نقصان اٹھانے والوں میں ہونگا۔‘‘
حکم الٰہی ہوا:
’’اے نوحؑ ہماری جانب سے تو اور تیرے ہمراہی ہماری سلامتی اور برکتوں کے ساتھ زمین پر اترو۔‘‘
(سورۃ ہود۔۴۵، ۴۸)
اللہ کے کلام سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ فلاح اور بھلائی کے حصول اور عذاب الٰہی سے نجات کا تعلق نسل و خاندان سے ہے اور نہ دولت و منصب سے اس کا کوئی واسطہ ہے بلکہ اس کا تعلق ’’ایمان اور یقین‘‘ سے ہے۔
شفقت پدری کے تحت آخری وقت پر حضرت نوح ؑ نے بیٹے کو ایمان لانے کی دعوت دی لیکن اس نافرمان نے جواب دیا:
’’میں لگ رہوں گا کسی پہاڑ کو، کہ بچا لے گا مجھ کو پانی سے۔‘‘
حضرت نوح ؑ نے کہا:
’’آج کوئی بچانے والا نہیں ہے صرف وہی بچے گا جس پر اللہ کا رحم ہو جائے اس دوران ان دونوں کے درمیان موج حائل ہو گئی اور وہ غرق ہونے والوں میں سے ایک ہو گیا۔‘‘
(سورۃ ہود۔ ۴۳)
چالیس دن بارش برستی رہی
پانی بڑھتا چلا گیا اور ہر شئے غرق ہو گئی۔ ۴۰ دن تک پانی برستا رہا، زمین سے پانی ابلتا رہا اور کشتی کم و بیش ساڑھے چھ ماہ تک پانی پر تیرتی رہی، اس کے بعد حکم الٰہی سے عذاب ختم ہوا تو سفینۂ نوح ’’جودی‘‘ پہاڑ پر جا کر ٹھہر گیا۔ اور پانی زمین پر چڑھتا ہی گیا اور بہت بڑھا اور کشتی پانی کے اوپر تیرتی رہی اور پانی زمین پر بہت ہی زیادہ چڑھا۔
’’اور چالیس دن تک زمین پر طوفان رہا اور پانی بڑھا اور اس نے کشتی کو اوپر اٹھا دیا، سو کشتی زمین پر سے اور سب اونچے پہاڑ جو دنیا میں ہیں چھپ گئے پانی ان سے پندرہ ہاتھ اور اوپر چڑھا اور پہاڑ ڈوب گئے اور سب جانور جو زمین پر چلتے تھے، پرندے اور چوپائے اور جنگلی جانور اور زمین کے سب رینگنے والے جاندار اور سب آدمی مر گئے۔‘‘
(کتاب مقدس۔ باب پیدائش: ۱۷ تا ۲۱)
توراۃ میں جودی کو ’’اراراط‘‘ کے پہاڑوں میں بتایا گیا ہے۔ اراراط اس علاقہ کا نام ہے جو فرات اور دجلہ کے درمیان ’دیار بکر‘ سے بغداد تک مسلسل چلا گیا ہے، پانی آہستہ آہستہ خشک ہونا شروع ہو گیا اور کشتی کے مسافروں نے امن و سلامتی کے ساتھ خدا کی زمین پر قدم رکھا۔ کشتی کے مسافروں کے علاوہ روئے زمین پر سے ہر جاندار چیز نابود ہو چکی تھی اور زمین کو دوبارہ آباد کرنے والے بس یہی لوگ تھے جو طوفان سے بچا لئے گئے تھے۔
ابو البشر ثانی:
اسی بناء پر حضرت نوح ؑ کا لقب ’’ابو البشر ثانی‘‘ یا ’’آدم ثانی‘‘ مشہور ہوا۔ حدیث شریف میں حضرت نوح ؑ کو ’’اول الرسل‘‘ کہا گیا ہے۔
یونان، مصر، ہندوستان اور چین کے قدیم لٹریچر کے علاوہ برما، ملایا، جزائر شرق الہند، آسٹریلیا، نیوگنی، امریکہ اور یورپ کے مختلف حصوں میں ایسی روایات تسلسل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں اور اب بھی بیان کی جاتی ہیں جن میں سیلاب کے بعد ہر ساٹھ سال کا ایک سال مان کر ان سالوں سے اپنے تمام عوامی اور ذاتی واقعات کی مدت شمار کی جاتی ہے۔
ہندوؤں کے نزدیک سیلاب نوح کا زمانہ ایسا واقعہ ہے جس کو وہ یاد گار سمجھتے ہیں اور اس کو ’’جل پریان‘‘ کہتے ہیں۔
۱۹۲۹ء میں خلیج فارس کے قریب ’’ار‘‘(Ur) کے قدیم شہر کی کھدائی کے دوران بہت گہرائی میں دس فٹ موٹی تہہ کی مٹی ملی تھی معائنہ کے بعد کھدائی کی نگرانی کرنے والے سائنسدانوں نے اعلان کیا کہ:
’’قرب و جوار کی زمین کے سائنسی تجزیہ سے یہ ثابت ہوا کہ مٹی کی یہ تہہ ایک زبردست طوفان کی باقی ماندہ تلچھٹ (Residue) ہے۔ جنوبی میسوپوٹامیا کے دریا کی وادیوں میں ہر جگہ ایسی ہی مٹی کی تہیں دریافت ہوئی ہیں۔‘‘
پچھلی صدی کے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ پانی اچانک چڑھا تھا اور یہ کہ بلند سے بلند تر پہاڑ کی چوٹی بھی پانی میں ڈوب گئی تھی۔ ہمالیہ، انڈیز، الپس اور امریکہ کے سلسلہ کوہ راکیز پر جو پانی کے نشان آج بھی موجود ہیں اور وہ اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ پانی اچانک ہی چڑھا تھا، دریائی جانوروں کے ڈھانچے اور ڈھانچوں کے نشانات سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ جو مردہ جانور سالم حالت میں پائے گئے ہیں ان میں تکلیف اور کرب نمایاں ہے اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ ان پر کسی گوشت خور جانور نے حملہ کیا تھا یا ان کا گوشت جسم سے الگ ہوا ہو، ان کی سب سے زیادہ واضح مثال سائبیریا سے نکلے ہوئے ایک ایسے سالم جانور کی ہے جس کا جسم کھال اور بال سمیت برف میں بالکل محفوظ حالت میں ملا ہے۔ یہ جانور بے حد جسیم ہے اور ان جانوروں میں سے ہے جن کا وجود چند ہزار سال پہلے تک تھا اور اب ناپید ہے۔ اس کی آنکھیں جسم کی کھال اور بال اس بات کی شہادت فراہم کرتے ہیں کہ اس کی موت اچانک کسی حادثے سے ہوئی ہے، اس کے منہ میں وہ گھاس جو حادثہ سے پہلے کھانے کے لئے اکھاڑ چکا تھا اور وہ گھاس جو اس کے پیٹ سے نکلی حیرت انگیز طور پر اس قسم کی گھاس میں سے ایک ہے جو گرم علاقوں میں پائی جاتی ہے۔
کشتی کی ایک روایت ساری دنیا کے باسیوں میں بے حد مشترک ہے زیادہ تر مذہبی کتابیں بھی ایک کشتی کا تذکرہ کرتی ہیں جس کے ذریعے بچ جانے والوں نے نسل انسانی کو باقی رکھا اور ان روایات کا کھوج لگانے اور ان کی اصلیت تک پہنچنے کے دوران سائنسدانوں کو جن دیگر باتوں کا پتہ چلا ہے وہ حیرت انگیز انکشاف ہے اس انکشاف سے انسانی عظمت کا ایک نیا باب کھلتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔