Topics

زندہ کرنے کا علم

ہر وجود کے اوپر روشنیوں سے بنا ہوا مرکب یا مفرد ایک جال ہوتا ہے۔ موت واقع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ روشنیوں کا غلاف (جسم مثالی) مادی وجود سے اپنا رشتہ منقطع کر لیتا ہے۔ ہر وجود پر ایک اور وجود غالب رہتا ہے اور اس غالب جسم کو روشنی یا نور (Cosmic rays) فیڈ کرتا ہے۔ سائنٹسٹ ابھی تک اس کا ادراک نہیں کر سکے کہ کاسمک ریز کا سورس کیا ہے؟ ہم جب کسی چیز کے بارے میں علم حاصل کرلیتے ہیں تو ایجاد عمل میں آ جاتی ہے۔ روشنیوں کا غلاف (جسم مثالی) کیا ہے؟ اس کا پورا علم حاصل ہونے کے بعد اللہ کے عطا کردہ اختیارات سے جسم مثالی کو دوبارہ مردہ شئے پر غالب کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہی علم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سکھایا تھا۔ عناصر سے کسی شئے کی شکل بنائی جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ روشنیوں کے لئے ایک بنیاد فراہم ہو گئی ہے، عناصر سے بنی ہوئی چڑیا، چمگادڑ یا مردہ، جسم پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام روشنیوں کا غلاف ڈھانپ دیتے تھے جیسے ہی روشنیوں کے غلاف میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے نور چھا جاتا تھا تو مردہ چیز زندہ ہو جاتی تھی۔ آدمی یا کوئی بھی مخلوق مرتی ہے تو قانون کے مطابق مادی جسم کے اوپر روشنیوں کے مرکب جال میں نور کا پھیلاؤ مادی وجود پر نہیں رہتا نتیجہ میں مادی جسم میں زندگی باقی نہیں رہتی۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ علم اور اختیار عطا فرمایا تھا کہ جب وہ کسی مردہ شئے کے اندر روح منتقل کر دیتے تھے تو مردہ زندہ ہو جاتا تھا اور جب مٹی اور پانی سے خود ساختہ چڑیا کو جسم مرکب (روشنیوں کے غلاف) میں بند کر دیتے تھے تو چڑیا میں زندگی دوڑ جاتی تھی اور چڑیا اڑ جاتی تھی۔

’’اور خدا سکھاتا ہے اس (عیسیٰ) کو کتاب حکمت تورات اور انجیل اور وہ رسول ہے بنی اسرائیل کی جانب (وہ کہتا ہے) کہ بیشک میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی جانب سے نشان لے کر آیا ہوں وہ یہ کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرند کی شکل بناتا ہوں پھر اس میں پھونک دیتا ہوں اور وہ خدا کے حکم سے زندہ پرند بن جاتا ہے اور پیدائشی اندھے کو بینا کر دیتا ہوں اور سپید داغ کے جذام کو اچھا کر دیتا ہوں اور خدا کے حکم سے مردوں کو زندہ کر دیتا ہوں اور تم کو بتا دیتا ہوں جو تم کھا کر آتے ہو اور جو تم گھر میں ذخیرہ رکھ آئے ہو، سو اگر تم حقیقی ایمان رکھتے ہو تو بلاشبہ ان امور میں (میری صداقت اور من جانب اللہ ہونے کے لئے) نشان ہے اور میں تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں جو میرے سامنے ہے اور (اس لئے بھیجا گیا ہوں) تا کہ بعض ان چیزوں کو جو تم پر حرام ہو گئی ہیں میں تمہارے لئے حلال کر دوں، تمہارے لئے پرورگار کے پاس ’’نشان‘‘ لایا ہوں پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے سو اس کی عبادت کرو یہ ہی سیدھی راہ ہے۔‘‘

(سورہ آل عمران۔ ۴۸، ۵۱)

چار آبشاریں

تکوینی امور کے واقف کار اہل باطن حضرات فرماتے ہیں کہ دنیا میں ہر مخلوق کے دو وجود ہیں۔ 

۱۔ جسمانی وجود

۲۔ روشنیوں اور نور کا وجود

تانے بانے کی طرح بنی ہوئی مرکب لہروں میں روشنی بہتی رہتی ہے اور یہی روشنی پورے اعضاء میں تحریک پیدا کرتی ہے نور اور روشنی کی تحریکات ہی مادی اجسام کی زندگی ہیں، روشنی کا بہاؤ اگر مادی اعضاء میں منتقل نہ ہو تو موت واقع ہو جاتی ہے۔ نور اور روشنی کو برقرار رکھنے کے لئے چار نورانی آبشاریں ہیں جو حجاب محمود، حجاب عظمت، حجاب کبریا اور عرش سے مسلسل نزول کرتی ہیں۔

’’تم اللہ کا انکار کس طرح کرتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے اور اس نے تمہیں زندہ کیا پھر وہ تمہیں مارے گا پھر (دوبارہ) زندہ کرے گا۔‘‘

(سورہ بقرہ۔ ۲۸)

’’اور وہ زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردے کو زندہ سے نکالنے والا ہے۔‘‘

(سورہ انعام۔ ۹۶)

ہر وجود دو رخوں مذکر اور مونث سے بنتا ہے۔ تخلیقی قانون کے تحت ہر رخ کے دو رخ ہوتے ہیں اور ہر ایک رخ کے الگ الگ دو رخ ہیں، دونوں رخوں میں خلیات (Cells) ہوتے ہیں ان ہی خلیوں سے جنس اور جنسی کشش کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ مرد کے جنسی خلیات جب عورت کے جنسی خلیات سے ملاپ کرتے ہیں اور ایک دوسرے میں جذب ہوتے ہیں تو تخلیق عمل میں آتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزے کا تذکرہ کر کے تخلیق کا فارمولا بیان کیا ہے انسان کی زندگی روح کے تابع ہے۔ آدم زاد کے اندر جب تک روح ہے مٹی کا وجود ہے، روح نہیں ہے تو مٹی کا وجود باقی نہیں رہتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر اپنی روح پھونکی اس کے اندر حواس متحرک ہو گئے۔

‘‘اور ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا۔‘‘

(سورہ مومنون۔ ۱۲)

’’اس نے جو چیز بنائی خوب ہی بنائی اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا پھر نچوڑ سے جو ایک حقیر پانی ہے اس کی نسل چلائی پھر اس کو درست کیا اور اس میں اپنی روح پھونکی اور تمہارے لئے کان، آنکھیں اور دل بنائے۔‘‘

(سورہ سجدہ۔ ۷)

’’بیشک ہم نے ان کو لیس دار مٹی سے بنایا۔‘‘

(سورہ الصٰفٰت۔ ۱۱)

’’جب کہا تیرے رب نے فرشتوں کو میں بتاتا ہوں ایک انسان مٹی کا پھر جب ٹھیک بنا چکوں اور پھونکوں اس میں ایک جان تو تم گر پڑو اس کے آگے سجدہ میں۔‘‘

(سورہ ص۔ ۷۱، ۷۲)

’’اس نے انسان کو پپڑی کی طرح بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔‘‘

(سورہ رحمٰن-۱۴)

اور اللہ نے اگایا تم کو زمین سے جما کر (سورہ نوح۔۱۷)

’’عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک جیسے مثال آدم کی بنایا اس کو مٹی سے پھر کہا اس کو ’’ہو جا‘‘ وہ ہو گیا۔‘‘

(سورہ آل عمران۔ ۵۹)

’’اس نے کہا کہ کیا میں اس کو سجدہ کروں؟ جس کو تو نے مٹی سے پیدا کیا۔‘‘

(سورہ بنی اسرائیل۔ ۶۱)

’’اس کے دوست نے اثنائے گفتگو میں یہ کہا کہ کیا تو اس کا منکر ہے جس نے پہلے تجھے مٹی سے پھر نطفے سے پیدا کیا اور پھر تجھ کو پورا آدمی بنایا۔‘‘

(سورہ کہف۔ ۳۷)

’’اے لوگو! اگر تم کو جی اٹھنے میں شک ہو تو ہم نے تم کو مٹی سے بنایا۔‘‘

(سورہ حج۔ ۵)

’’اس نے جو چیز بنائی خوب ہی بنائی اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا۔‘‘

(سورہ سجدہ۔ ۶)

’’اور اللہ نے تمہیں مٹی سے بنایا۔‘‘

(سورہ فاطر: ۱۱)

’’وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔‘‘

(سورہ مومنون۔ ۶۷)

’’اور ہم نے انسان کو کالے سڑے ہوئے گارے سے جو کھنکتا، بولتا ہے پیدا کیا۔‘‘

(سورہ حجر۔ ۲۶)

’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں کالے سڑے ہوئے گارے سے جو کھن کھن بولتا ہے انسان بنانے والا ہوں۔‘‘

(سورہ حجر۔ ۲۸)

’’وہ ابلیس بولا میں وہ نہیں ہوں کہ ایسے بشر کو جس کو تو نے کالے سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے وہ کھن کھن بولتا ہے سجدہ کروں۔‘‘

(سورہ حجر۔ ۳۳)

’’اور وہی ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا اور پھر اس کو کسی کا بیٹا، بیٹی اور کسی کا داماد، بہو بنایا۔‘‘

(سورہ فرقان۔ ۵۲)

ہڈیوں پر گوشت

’’پھر ہم نے اس کو حفاظت کی جگہ پر نطفہ بنا کر رکھا پھر ہم نے نطفہ لوتھڑا بنایا پھر ہم نے لوتھڑے کی بندھی بوٹی بنائی، پھر ہم نے اس بندھی بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ہم نے ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر ہم ہی نے اس کو دوسری مخلوق بنا کر کھڑا کیا، خدا بڑا ہی برکت والا سب بنانے والوں میں بہتر ہے۔‘‘

(سورہ مومنون۔ ۱۳)

’’اور اللہ ہی نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور پھر نطفہ سے تم کو جوڑا جوڑا بنا دیا۔‘‘

(سورہ فاطر۔ ۱۲)

’’وہ (خدا ہی تو) ہے جس نے تم کو اول بار مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر لوتھڑے سے پھر تم کو بچہ نکالتا ہے پھر (زندگی دیتا ہے) 

تا کہ تم جوانی تک پہنچو پھر تم کو (اور زندہ رکھتا ہے) تا کہ تم بوڑھے ہو جاؤ۔‘‘

(سورہ مومنون۔ ۶۷)

’’ہم نے آدمی کو مرکب نطفہ سے پیدا کیا اور غرض یہ تھی کہ ہم اس کو آزمائیں پھر اسی لئے ہم نے اس کو سنتا اور دیکھتا بنایا۔‘‘

(سورہ دھر۔ ۲)

’’تو کہہ وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے۔‘‘

(سورہ ملک۔ ۲۳)

میرے رب کا امر

’’اے محمدﷺ! یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ فرما دیجئے کہ روح میرے رب کے امر سے ہے اور جو کچھ تمہیں علم دیا گیا ہے قلیل ہے۔‘‘

(سورہ بنی اسرائیل۔ ۸۵)

روشن بات یہ ہے

’’روح کا قلیل علم دیا گیا ہے۔‘‘ جس قلیل علم کا تذکرہ کیا جا رہا ہے اللہ کا علم ہے اور اللہ کے تمام علوم لامتناہی ہیں۔ لامتناہی کا قلیل بھی لامتناہی ہوتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روح کا جو علم عطا کیا ہے وہ اللہ کے علوم کے مقابلے میں قلیل ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روح کا علم نہیں سکھایا۔

’’روح میرے رب کے امر سے ہے اور امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ’’ہوجا‘‘ اور وہ ہو جاتی ہے، انسان ناقابل تذکرہ شئے تھا ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی۔‘‘

یہی بات اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے فرما رہے ہیں کہ جب تو بناتا ہے مٹی سے جانور کی صورت میرے حکم سے یعنی میری رضا اور میرے دیئے ہوئے علوم سے پھر اس میں پھونک مارتا ہے تو ہو جاتا وہ جانور یعنی عناصر اور پانی سے جب مادی جسم بنا کر پھونک مارتے تھے تو پرندے اڑ جاتے تھے اور کوڑھی اور اندھے بھلے چنگے ہو جاتے تھے۔


٭٭٭٭٭


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔