Topics
قبیلہ بنو جرہم میں حضرت اسماعیلؑ کی دو شادیاں ہوئیں۔
پہلی شادی عمارہ بنت سعید سے ہوئی۔ ایک مرتبہ حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کے گھر تشریف لائے۔ حضرت اسماعیلؑ گھر پر موجود نہیں تھے۔ خیریت معلوم کی تو آپ کی اہلیہ نے مصائب و آلام اور تنگ دستی کا اظہار کیا۔ حضرت ابراہیمؑ نے جاتے ہوئے فرمایا:
’’اسماعیلؑ سے میرا سلام کہہ دینا اور کہنا کہ دروازے کی چوکھٹ تبدیل کر دے۔‘‘
حضرت اسماعیلؑ گھر آئے تو بیوی نے پیغام پہنچا دیا۔ حضرت اسماعیلؑ سمجھ گئے کہ آنے والے مہمان ان کے والد حضرت ابراہیمؑ تھے اور وہ ہدایت دے گئے ہیں کہ بیوی کو چھوڑ کر دوسری شادی کر لی جائے۔
حضرت اسماعیلؑ کی دوسری شادی سیدہ بنتِ مضاض جرہمی سے ہوئی۔ حضرت ابراہیمؑ حضرت اسماعیلؑ کی غیر موجودگی میں دوبارہ تشریف لائے تو آپ کی زوجہ نے خوب خاطر مدارت کی۔ حضرت ابراہیمؑ نے حال احوال پوچھا تو سیدہ بنت مضاض نے فراخی رزق اور خوشحالی کا تذکرہ کیا اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کیا۔ حضرت ابراہیمؑ جاتے ہوئے پیغام دے گئے:
’’اسماعیل سے کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو محفوظ رکھے۔‘‘
حضرت اسماعیلؑ کے گھر واپس آنے پر ان کی اہلیہ نے تمام روداد بیان کی تو حضرت اسماعیلؑ نے فرمایا کہ وہ میرے باپ حضرت ابراہیمؑ تھے اور مجھے ہدایت کر گئے ہیں کہ میں تمہیں اپنے سے جدا نہ کروں۔ حضرت اسماعیلؑ کے بارہ بیٹے تھے جو اپنے اپنے قبیلے کے سردار کہلائے اور قبیلے اپنے سرداروں کے ناموں سے مشہور ہوئے۔
’’اور اسماعیل کے بیٹوں کے نام یہ ہیں۔ یہ نام ترتیب وار ان کی پیدائش کے مطابق ہیں۔ اسماعیل کا پہلوٹھی کا بیٹا نبایوت تھا پھر قیدار اورادبئیل اور مبسام اور مشماع اور دومہ اور مّسا۔ حدد اور تیما اور یطور اور نفیس اور قدمہ۔ یہ اسماعیل کے بیٹے ہیں اور انہی کے ناموں سے ان کی بستیاں اور چھاؤنیاں نامزد ہوئیں اور یہی بارہ بیٹے اپنے اپنے قبیلے کے سردار ہوئے۔‘‘
(توریت بابا پیدائش: ۱۷۔۱۳)
حضرت اسماعیلؑ کے بیٹوں میں سے بڑے دو بیٹے نبایوت اور قیدار بہت مشہور ہیں۔ نبایوت کی نسل ’’اصحاب الحجر‘‘ کہلائی اور قیدار کی نسل ’’اصحاب الرس‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ قیدار کی اولاد خاص مکہ میں رہی اور اسی سلسلہ نسب میں نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیﷺ کا ظہور ہوا۔
حضرت اسماعیلؑ کی ایک بیٹی بھی تھی۔ جس کی شادی عیسوادوم سے ہوئی۔ جو آپ کے چھوٹے بھائی حضرت اسحٰقؑ کے بڑے فرزند اور حضرت یعقوبؑ کے بھائی تھے۔
حضرت اسماعیلؑ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جد اعلیٰ ہیں۔ آپ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کم و بیش پونے تین ہزار سال قبل پیدا ہوئے۔ حضرت اسماعیلؑ نے ایک سو سینتیس برس کی عمر میں انتقال فرمایا۔ حضرت اسماعیلؑ کا مدفن کعبہ شریف میں میزاب اور حجر اسود کے درمیان ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آپ کی والدہ ماجدہ بھی یہیں مدفون ہیں۔ انتقال کے وقت تک حضرت اسماعیلؑ کی اولاد اور نسل کا سلسلہ حجاز، مشام، عراق، فلسطین اور مصر تک پھیل گیا تھا۔
تاریخ کی کتابوں میں حضرت اسماعیلؑ سے صادر ہونے والے دو معجزات کا تذکرہ ملتا ہے۔ ایک شخص انتہائی لاغر اور بیمار بھینس آپ کے پاس لایا اور عرض کیا کہ بھینس دودھ نہیں دیتی، گھر میں تنگدستی ہے۔ حضرت اسماعیلؑ نے اپنا ہاتھ بھینس کے تھنوں پر پھیرا بھینس کے تھنوں میں دودھ اتر آیا۔
ایک روز چند آدمی آپ کے پاس آئے۔ گھر میں مہمانوں کو کھلانے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ آپ نے تھوڑا سا آب زم زم ایک دیگ میں ڈال کر سرخ رومال سے ڈھانک دیا۔ جب دیگ سے کپڑا اٹھایا تو دیگ کھانے سے بھری ہوئی تھی۔
قرآن پاک میں حضرت اسماعیلؑ کے اوصاف اور آپ کی فضیلت و بزرگی کا تذکرہ متعدد بار اس طرح ہوا ہے۔
’’اور یاد کرو کتاب میں اسماعیلؑ کا ذکر، تھا وہ وعدے کا سچا اور تھا رسول نبی، اور حکم کرتا تھا اپنے اہل کو نماز اور زکوٰۃ کا، اور تھا وہ اپنے پروردگار کے نزدیک پسندیدہ۔‘‘
(سورۃ مریم: ۵۴۔۵۵)
’’اور اسماعیل اور ایسع اور یونس اور لوط کو یاد کرو۔ اور ہم نے ان سب کو جہاں کے لوگوں پر فضیلت بخشی تھی اور بعض پر بعض کو ان کے باپ دادا اور ان کو برگزیدہ بھی کیا تھا اور سیدھا راستہ بھی دکھایا تھا۔‘‘
(سورۃ الانعام: ۸۷۔۸۸)
"اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل یہ سب صبر کرنے والے تھے۔اور ہم نے ان کو اسی رحمت میں داخل کیا۔بلا شبہ وہ نیکو کار تھے۔"
(سورۃ الانبیاء ۸۵-۸۶)
’’اور اسماعیلؑ اور الیسع اور ذوالکفل کو یاد کرو وہ سب نیک لوگوں میں سے تھے۔‘‘
(سورۃ ص: ۴۸)
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔