Topics

تجدید زندگی

دنیا کا ہر انسان جانتا ہے کہ زندگی کی تجدید ہر لمحہ ہوتی رہتی ہے اس تجدید کے ظاہری وسائل ہوا، پانی اور غذا ہیں لیکن انسانی جسم پر ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جب ہوا پانی اور غذا زندگی کی تجدید نہیں کر سکتے، مادی دنیا میں ایسی حالت کو موت کہتے ہیں جب موت وارد ہو جاتی ہے تو کسی طرح کی ہوا، کسی طرح کا پانی اور کسی طرح کی غذا آدمی کی زندگی کو بحال نہیں کر سکتی۔ اگر ہوا، پانی اور غذا ہی انسانی زندگی کا سبب ہوتے تو کسی مردہ جسم کو ان چیزوں کے ذریعے زندہ کرنا ناممکن نہ ہوتا۔ اب یہ حقیقت بے نقاب ہو جاتی ہے کہ انسان زندگی کا سبب ہوا، پانی اور غذا نہیں بلکہ کچھ اور ہے اور اس سبب کی وضاحت قرآن پاک کے ان الفاظ سے ہوتی ہے۔

’’پاک ہے وہ ذات جس نے سب چیزوں کو دو قسموں پر پیدا کیا۔‘‘

(سورۃ یٰسین۔ ۳۶)

نیند آدھی زندگی ہے

اس آیت کی روشنی میں زندگی کے اسباب ایک طرف شعوری اسباب ہیں اور دوسری طرف لاشعوری اسباب ہیں، ایک سبب غیر رب کی نفی ہے جو زندگی کو بحال رکھنے کے لئے جزواعظم ہے، انسان شخص اکبر کے ارادے کے تحت اس امر کی تعمیل کرنے پر مجبور ہے۔ جب ہم آدمی کی پوری زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انسانی زندگی کا نصف لاشعور ہے اور نصف شعور کے زیر اثر ہے۔ پیدائش کے بعد انسانی عمر کا ایک حصہ قطعی غیر شعوری حالت میں گزرتا ہے پھر ہم تمام زندگی میں نیند کا وقفہ شمار کریں تو وہ عمر کی ایک تہائی سے زیادہ ہوتا ہے اگر غیر شعوری عمر اور نیند کے وقفے ایک جگہ کئے جائیں تو پوری عمر کا نصف ہونگے اور یہ وہ نصف ہے جس کو انسان لاشعور کے زیر اثر بسر کرتا ہے ایسا کوئی انسان پیدا نہیں ہوا جس نے قدرت کے قانون کو توڑ دیا ہو۔

چنانچہ ہم زندگی کے دو حصوں کو لاشعوری اور شعوری زندگی کے نام سے جانتے ہیں۔ یہی زندگی کی دو قسمیں ہیں، لاشعوری زندگی کا حصہ لازماً غیر رب کی نفی کرتا ہے اور اس نفی کا حاصل اسے غیر ارادی طور پر جسمانی بیداری کی شکل میں ملتا ہے، اب اگر کوئی شخص لاشعور کے زیر اثر زندگی کے وقفوں میں اضافہ کر دے تو اسے روحانی بیداری میسر آ سکتی ہے اس اصول کو قرآن پاک نے سورۃ مزمل میں بیان فرمایا ہے:

’’اے کپڑوں میں لپٹنے والے! رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر تھوڑی سی رات یعنی نصف رات (کہ اس میں قیام نہ کروبلکہ آرام کرو) یا اس نصف سے کسی قدر کم کردو یا نصف سے کسی قدر بڑھا دو اور قرآن خوب صاف صاف پڑھو(کہ ایک ایک حرف الگ الگ ہو) ہم تم پر ایک بھاری کلام ڈالنے کو ہیں بے شک رات کے اٹھنے میں دل اور زبان کا خوب میل ہوتا ہے اور بات خوب ٹھیک نکلتی ہے بے شک تم کو دن میں بہت کام رہتا ہے (دنیاوی بھی اور دنیوی بھی) اور اپنے رب کا نام یاد کرتے رہو اور سب سے قطع کر کے اس کی طرف متوجہ رہو وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے اس کے سوا کوئی قابل عبادت نہیں۔‘‘

(سورۃ مزمل: ۱۔۹)

متذکرہ بالا آیات کی رو سے جس طرح جسمانی توانائی کے لئے انسان غیر شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنے کا پابند ہے اسی طرح روحانی بیداری کے لئے شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنا ضروری ہے، سورۃ مزمل شریف کی مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہی قانون بیان فرمایا ہے جس طرح غیر شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنے سے جسمانی زندگی کی تعمیر ہوتی ہے اسی طرح شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنے سے روحانی زندگی حاصل ہوتی ہے۔‘‘

 (لوح و قلم)


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔