Topics
ذوالکفل کا لفظی ترجمہ ’’صاحب نصیب‘‘ ہے۔ قرآن کی دو سورتوں ’’صؔ ‘‘ اور ’’انبیاء‘‘ میں حضرت ذوالکفل کا ذکر آیا ہے۔
اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل سب صبر کرنے والے تھے ہم نے انہیں اپنی رحمت کے سائے میں لے لیا۔ یقیناً وہ نیک بندوں میں سے تھے۔‘‘
(سورۃ الانبیاء۔ ۸۵)
’’اور یاد کرو اسماعیل، الیسع اور ذوالکفل کے واقعات اور یہ سب نیکو کار میں سےتھے۔‘‘
(سورۃ ص۔ ۴۸)
مفسرین کی رائے میں حضرت ذوالکفل ؑ حضرت الیسعؑ کے جانشین تھے۔ حضرت ذوالکفلؑ حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد میں سے تھے۔روایت ہے کہ حضرت الیسعؑ بہت بوڑھے ہو گئے تو آپ نے بنی اسرائیل کو ایک جگہ جمع کیا اور فرمایا کہ میں اپنا جانشین مقرر کرنا چاہتا ہوں۔ اور میں اس شخص کو مقرر کروں گا جو مجھ سے تین باتوں کا عہد کرے گا۔ اول یہ کہ دن بھر روزہ رکھے گا، دوم شب بیداری کرے گا اور خدا کی عبادت کرے گا، سوم کبھی بھی غصہ نہیں کرے گا۔
آپ کی تینوں شرائط سننے کے بعد مجمع میں سے صرف ایک شخص کھڑا ہوا۔ اس نے کہا میں حاضر ہوں اس کے بعد حضرت الیسع علیہ السلام نے محفل برخاست کر دی۔ دوسرے دن آپ نے پھر لوگوں کو اکٹھا کیا اور اپنی تینوں شرائط دہرائیں اس دن بھی وہی شخص کھڑا ہو گیا۔ آپ نے اس شخص سے کہا کہ اچھی طرح سوچ لو کہ تم شرائط کی پابندی کر سکو گے یا نہیں۔ اس نے اقرار کیا۔ آپ نے اس روز بھی محفل برخاست کر دی اور تیسرے روز پھر لوگوں کو جمع کیا اور تیسری بار بھی وہی شخص کھڑا ہوا۔ تب آپ نے اسے اپنے جانشین کے طور پر منتخب کر لیا۔ وہ شخص حضرت ذوالکفل علیہ السلام تھے۔
مفلوک الحال شیطان
حضرت ذوالکفل علیہ السلام کا معمول تھا کہ دن رات میں صرف تھوڑی دیر کے لئے دوپہر میں سوتے تھے۔ غصہ سے ہمیشہ اجتناب کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ شیطان ہر وقت آپ کی تاک میں لگا رہتا تھا۔ ایک دن وہ مفلوک الحال بوڑھے کی صورت میں دروازے پر پہنچ گیا۔ یہ آپ کے سونے کا وقت تھا۔ شیطان نے دستک دی تو آپ باہر تشریف لے آئے۔ ابلیس نے آپ سے کہا کہ میری قوم نے مجھ پر ظلم کر رکھا ہے اور داستان ظلم کو اتنا طویل کر دیا کہ سونے کا وقت ختم ہو گیا۔ آپ نے اس سے کہا کہ اب تم جاؤ شام کو آنا لیکن ابلیس شام کو تو آیا نہیں بلکہ دوسرے دن عین قیلولہ کے وقت آ گیا۔ اور آپ کو باتوں میں الجھا لیا اس روز بھی سونے کا وقت ختم ہو گیا۔ آپ نے اسے پھر شام کے وقت بلوایا۔ مگر وہ تیسرے روز بھی قیلولہ کے وقت آ گیا۔حضرت ذوالکفل علیہ السلام نے اپنی اہل خانہ سے کہا کہ آج کوئی بھی آئے تو انہیں بیدار نہ کیا جائے۔ چنانچہ جب ابلیس نے دستک دی تو اہل خانہ نے منع کر دیا۔ ابلیس نے مکاری سے کام لیا اور کہا کہ مجھے حضرت نے وقت دیا ہے اور ایک نہایت ضروری بات کرنی ہے۔ لیکن آپ کی اہل خانہ نے منع کر دیا۔ جب بات نہ بنی تو شیطان اپنی ابلیسی قوتوں سے حضرت ذوالکفل علیہ السلام کے کمرے میں آ گیا۔ آپ بیدار ہو گئے اور اس کو کمرے میں دیکھ کرآپ نے پوچھا تو ابلیس ہی ہے نا۔ ابلیس نے کہا، ہاں میں اور میری ذریت آپ پر قابو نہ پا سکی۔ میں نے چاہا کہ آپ کو طیش دلا دوں اور اس عہد میں ناکام بنا دوں جو آپ نے حضرت الیسع علیہ السلام سے کیا تھا لیکن مجھے اعتراف ہے کہ میں ناکام رہا۔
اس واقعہ کی بنا پر آپؑ کو" ذوالکفل" کا لقب ملا۔
حکمت
اس واقعہ میں یہ سبق ملتا ہے کہ شیطان ہمارا ہر حال میں دشمن ہے۔ وہ نبیوں کے تعاقب میں بھی رہتا ہے اور انہیں بھی بہکانے کی تدبیریں کرتا ہے۔ حضرت ذوالکفل علیہ السلام تھوڑی سی دیر کے لئے سوتے تھے۔ شیطان نے سوچا کہ اگر ان کی نیند خراب کر دی جائے تو ان کے اعصاب میں اضمحلال پیدا ہو جائیگا اور وہ اپنے عہد کو برقرار نہیں رکھ سکیں گے اور جب اس کا بس نہ چلا تو اسے نے ابلیسی قوت کو آزمایا اور ان کے کمرے میں گھس گیا۔ کیونکہ اس طرح کسی بوڑھے آدمی یا جوان آدمی کا کمرے میں آنا جانا ممکن نہیں تھا اس لئے حضرت ذوالکفل ؑ نے اسے پہچان لیا اور پوچھا کہ تو شیطان ہی ہے۔اور شیطان کی تدبیر اور اس کا مکر خود اس کے لئے ذلت اور رسوائی کا سبب بن گیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے دوست کی حفاظت فرمائی۔
تین شرائط پر تفکر کرنے سے یہ نتیجہ مرتب ہوتا ہے کہ
۱) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ روزہ کی جزا میں خود ہوں یعنی روزہ رکھنے والے کے حواس اتنے نفیس اور لطیف ہو جاتے ہیں کہ وہ بحکم الٰہی تجلی ذات کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔
۲) شب بیدار بندے قرب الٰہی سے سرشار ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ مزمل شریف میں اللہ کی طرف رجوع کرنے اور قرآن پاک کی تلاوت کا حکم دیا ہے۔
’’اے کپڑے میں لپٹنے والے قیام کر رات کو مگر کسی رات آدھی رات یا اس سے کم کر دے تھوڑا یا زیادہ کر اس پر اور کھول کھول کر پڑھ قرآن کو صاف۔‘‘
(سورۃ مزمل۱۔۳)
۳) رب کائنات کا ارشاد ہے
جو لوگ غصہ نہیں کرتے اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں اللہ ایسے احسان کرنے والے بندوں سے محبت کرتا ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ غصہ کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔
٭٭٭٭٭
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔