Topics

‘‘اصحابِ کہف’’

تعریف اللہ کے لئے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی۔ ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب، تا کہ وہ لوگوں کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کر دے اور ایمان لا کر نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبری دیدے کہ ان کے لئے اچھا اجر ہے۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور ان لوگوں کو ڈرا دے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ اس بات کا نہ انہیں کوئی علم ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو تھا۔ بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے وہ محض جھوٹ بکتے ہیں۔ شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تا کہ ان لوگوں کو آزمائیں ان میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ آخر کار ان سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ غار اور کتے والے ہماری کوئی بڑی عجیب نشانیوں میں سے تھے۔ جب وہ چند نوجوان غار میں پناہ گزین ہوئے اور انہوں نے کہا کہ اے پروردگار! ہم کو اپنی رحمت خاص سے نواز اور ہمارا معاملہ درست کر دے۔ تو ہم نے انہیں اسی غار میں تھپک کر سالہا سال کیلئے گہری نیند سلا دیا پھر ہم نے انہیں اٹھایا تا کہ دیکھیں ان کے دو گروہوں میں سے کون اپنی مدت قیام کا ٹھیک شمار کرتا ہے۔ ہم تمہیں ان کا اصل قصہ سناتے ہیں وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کر دیئے جب وہ اٹھے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ ’’ہمارا رب تو بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں گے، اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بے جا بات کریں گے۔ (پھر انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا) یہ ہماری قوم تو رب کائنات کو چھوڑ کر دوسرے خدا بنا بیٹھی ہے۔ یہ لوگ ان کے معبود ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے، آخر اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔ اب جب کہ تم ان سے اور ان کے باطل معبودوں سے بے تعلق ہو چکے ہو تو چلو اب فلاں غار میں چل کر پناہ لیں۔ تمہارا رب تم پر اپنی رحمت کا دامن وسیع کرے گا۔ اور تمہارے کام کے لئے سروسامان مہیا کر دے گا۔ تم انہیں غار میں دیکھتے تو تمہیں یوں نظر آتا کہ سورج جب نکلتا ہے تو ان کے غار کو چھوڑ کر دائیں جانب چڑھا جاتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بچ کر بائیں جانب اتر جاتا ہے۔ اور وہ ہیں کہ غار کے اندر ایک وسیع جگہ میں پڑے ہیں۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے۔ اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لئے تم کوئی ولی مرشد نہیں پا سکتے۔ تم انہیں دیکھ کر یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں۔ حالانکہ وہ سو رہے تھے۔ ہم انہیں دائیں بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے۔ اور ان کا کتا غار کے دہانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا اگر تم کہیں جھانک کر انہیں دیکھتے تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور تم پر ان کے نظارے سے دہشت بیٹھ جاتی اور اسی عجیب کرشمے سے ہم نے انہیں اٹھا بٹھایا تا کہ ذرا آپس میں پوچھ گچھ کریں۔ ان میں سے ایک نے پوچھا۔ کہو، کتنی دیر اس حال میں رہے؟ دوسروں نے کہا۔ شاید دن بھر یا اس سے کچھ کم رہے ہونگے۔ پھر وہ بولے، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہمارا کتنا وقت اس حالت میں گزرا۔ چلو اب اپنے میں سے کسی کو چاندی کا سکہ دے کر شہر بھیجیں اور وہ دیکھے کہ سب سے اچھا کھانا کہاں ملتا ہے۔ وہاں سے وہ کچھ کھانے کے لئے لائے اور چاہئے کہ ذرا ہوشیاری سے کام کرے ایسا نہ ہو کہ وہ کسی کو ہمارے یہاں ہونے سے خبردار کر دے۔ اگر کہیں ان لوگوں کا ہاتھ ہم پر پڑ گیا تو بس سنگسار ہی کر ڈالیں گے، یا پھر زبر دستی ہمیں اپنی ملت میں واپس لے جائیں گے۔ اور ایسا ہوا تو ہم کبھی فلاح نہ پا سکیں گے۔ اس طرح ہم نے اہل شہر کو ان کے حال پر مطلع کیا۔ تا کہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت کی گھڑی بیشک آ کر رہے گی۔ اس وقت وہ آپس میں اس بات پر جھگڑ رہے تھے کہ ان (اصحاب کہف) کے ساتھ کیا کیا جائے۔ کچھ لوگوں نے کہا، ان پر ایک دیوار چن دو ان کا رب ہی ان کے معاملے کو بہتر جانتا ہے۔ مگر جو لوگ ان کے معاملات پر غالب تھے۔ انہوں نے کہا، ہم تو ان پر ایک عبادت گاہ بنائیں گے۔ کچھ لوگ کہیں گے وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا۔ 

اور کچھ دوسرے کہہ دیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا۔ یہ سب بے تکی باتیں کرتے ہیں۔ کچھ اور لوگ کہتے ہیں کہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ کہو، میرا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنے تھے کم ہی لوگ ان کی صحیح تعداد جانتے ہیں۔ پس تم سرسری بات سے بڑھ کر ان کی تعداد کے معاملے میں لوگوں سے بحث نہ کرو اور نہ ان کے متعلق کسی سے کچھ پوچھو، کسی چیز کے بارے میں کبھی یہ نہ کہا کرو کہ میں کل یہ کام کرو دونگا (تم کچھ نہیں کر سکتے) اِلّا یہ کے اللہ چاہے اگر بھولے سے ایسی بات زبان سے نکل جائے تو فوراً اپنے رب کو یاد کرو اور کہو امید ہے کہ میرا رب مجھ کو سمجھا دے اس سے نزدیک راہ نیکی کی اور وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے اور (کچھ لوگ مدت کے شمار میں) نو سال اور بڑھ گئے ہیں تم کہو اللہ ان کے قیام کی مدت زیادہ جانتا ہے، آسمانوں اور زمین کے سب پوشیدہ احوال اسی کو معلوم ہیں۔ کیا خوب ہے وہ دیکھنے والا اور سننے والا کوئی خبر گیر اس کے سوا نہیں اور وہ اپنی حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ اے نبیﷺ! تمہارے رب کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیا گیا ہے اسے (جوں کا توں) سنا دو کوئی اس کے فرمودات کو بدل دینے کا مجاز نہیں ہے، اس سے بچ کر بھاگنے کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلبگار بن کر صبح شام اسے پکارتے ہیں اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو، کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو، کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنے خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے۔‘‘

(سورہ کہف: ۱۔۲۸)


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔