Topics

حضرت ہاجرہؓ

ہاجرہ اصل میں عبرانی لفظ ’’ہاغاز‘‘ ہے جس کے معنی ’’بے گانہ‘‘ ’’اجنبی‘‘ اور ’’جدا ہونے والے‘‘ کے ہیں۔کنعان شام میں قحط کے آثار ختم ہوئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی زوجہ سارہ، بھتیجے لوطؑ اور حضرت ہاجرہؓ کے ساتھ مصر سے شام واپس آ گئے۔

حضرت لوط ؑ

شاہ مصر نے بیل، گائے، بکریوں کے ریوڑ اور بہت سے غلام اور کنیزیں آپ کو ہدیہ کی تھیں وسائل کی فراوانی اور مویشیوں کی کثرت تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت لوط ؑ کو بہت سارے مویشی اور مال و اسباب دے کر حق اور وحدانیت کے مشن کو پھیلانے کیلئے روانہ کر دیا۔ حضرت لوط ؑ نے دریائے اردن کے کنارے ’’سدوم‘‘ اور ’’عجورہ‘‘ کی بستیوں کے قریب قیام کیا۔ 

حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت ایل چھوڑ کر حبرون کے علاقے میں چلے گئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ۸۵ سال کے تھے لیکن ابھی تک لا ولد تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بارگاہ رب العزت میں صاحب اولاد ہونے کی دعا کی:

’’اے میرے رب! بخش مجھ کو کوئی نیک بیٹا۔‘‘ 

(سورۃ الصٰفٰت۔ ۱۰۰)

اللہ تعالیٰ تعالیٰ نے دُعا قبول فرمائی۔

اشموئیل ؑ

’’پھر ہم نے اسے ایک بردبار بیٹے کی بشارت دی۔‘‘ 

(سورۃ الصٰفٰت۔ ۱۰۱)

حضرت ہاجرہؓ کے بطن سے بیٹا پیدا ہوا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کا نام عبرانی زبان میں اشموئیل رکھا جو بعد میں کثرت استعمال سے اسمٰعیل ہو گیا۔ حضرت اسمٰعیل سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہت پیار تھا وہ ذرا سی دیر کے لئے بھی انہیں نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے، گود میں لئے رہتے تھے اور اپنے کندھوں پر بٹھاتے تھے۔ یہ بات حضرت سارہ کی برداشت سے باہر تھی۔ حضرت سارہ اور حضرت ہاجرہؓ کا اختلاف ختم کرنے کیلئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بہت کوشش کی مگر دونوں بیگمات میں ذہنی ہم آہنگی نہیں ہوئی۔

وادی ام القریٰ

اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا کہ بی بی ہاجرہؓ اور اکلوتے بیٹے کو لے کر مکے کی طرف روانہ ہو جاؤ۔ جب آپ وادی ام القریٰ میں پہنچے تو ماں بیٹے کو وہاں چھوڑ دیا۔ قرآن حکیم نے اس مقام کو ’’وادی غیر ذی زرع‘‘ کہا ہے بنجر اور پتھریلی زمین میں کھجوریں اور پانی کا مشکیزہ رکھ کر کچھ کہے سنے بغیر واپس جانے لگے تو بی بی ہاجرہؓ نے بے قراری سے پوچھا:

’’اے اللہ کے مقرب بندے! آپ ہمیں کس کے سہارے چھوڑے جا رہے ہیں؟‘‘

آپ نے فرمایا: ’’اللہ کے سہارے۔‘‘

بی بی ہاجرہؓ نے پوچھا: ’’کیا یہ اللہ کا حکم ہے؟‘‘

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا: ’’ہاں‘‘

پاک باطن خاتون حضرت ہاجرہؓ بولیں:

’’آپ تشریف لے جائیں، بے شک اللہ ہمارا کفیل ہے، وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔‘‘

مشکیزہ کا پانی اور کھجوریں ختم ہو گئیں تو شیر خوار بچہ بھوک اور پیاس سے رونے لگا، جنگل بیابان میں دور دور تک پانی کا نام و نشان نہیں تھا، بی بی ہاجرہؓ دوڑتی ہوئی قریبی پہاڑی پر گئیں کہ شاید پانی مل جائے مگر خشک پتھروں کے علاوہ وہاں کچھ نہ تھا، بچے کی تنہائی کا خیال آیا تو بھاگ کر نیچے واپس آئیں، شیر خوار بچہ بھوک کی شدت سے بلک رہا تھا۔ حضرت ہاجرہؓ بھی کئی وقت سے بھوکی، پیاسی تھیں کمزوری کی وجہ سے چلنا دشوار ہو رہا تھا لیکن بے قرار ہو کر دوسری طرف کی پہاڑی پر چڑھ گئیں کہ شاید آس پاس کسی آبادی کا نشان ملے یا کوئی قافلہ گزرتا ہوا نظر آ جائے دور پاس ہر طرف ریت کے اڑتے ہوئے بگولوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ وہاں سے پلٹ کر پھر بچے کے پاس آئیں۔ اسمٰعیل رو رہا تھا، حضرت ہاجرہؓ پھر دل گرفتہ ہو کر پہاڑی کی طرف بھاگتی ہوئی گئیں۔ حضرت ہاجرہؓ نے بے قراری کے عالم میں دونوں پہاڑیوں کے مابین سات چکر کاٹے لیکن پانی نہیں ملا تو ساتویں مرتبہ حضرت ہاجرہؓ واپس آئیں تو دیکھا جس جگہ بچہ روتے ہوئے ایڑیاں رگڑ رہا تھا وہاں شفاف پانی کا چشمہ ابل رہا ہے۔

زم زم

حضرت ہاجرہؓ نے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل کو بھی پانی پلایا پانی تیزی سے پھیل رہا تھا، حضرت ہاجرہؓ نے پتھر اور مٹی سے پانی کے گرد منڈیر بنا دی تا کہ پانی ضائع نہ ہو۔ چند دنوں بعد اس طرف سے ایک قافلہ گزرا ریگستان میں پانی دیکھ کر بنو جرہم کا قافلہ رک گیا۔ حضرت ہاجرہؓ سے پانی استعمال کرنے اور قیام کرنے کی اجازت لی اور اشیائے خورد و نوش کی صورت میں معاوضہ ادا کیا۔

قبیلے کے لوگوں نے یہاں مکان بنا لئے قافلے گذرتے تو آبادی دیکھ کر یہاں پڑاؤ ڈال لیتے رفتہ رفتہ یہ جگہ آباد ہو گئی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام اگرچہ فلسطین میں مقیم تھے لیکن بیوی بچے سے ملاقات کے لئے وقتاً فوقتاً مکہ آتے تھے۔ حضرت اسمٰعیل ؑ کی عمر جب ۱۳ سال کی ہوئی تو ختنہ کا حکم نازل ہوا۔ 

’’اور میرا عہد جو میرے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے اور جسے تم مانو گے سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک اپنے فرزند نرینہ کا ختنہ کرے۔‘‘

(پیدائش باب ۱۷۔ آیت۔۱۰)

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر ۹۹ سال تھی۔ آپ کو خواب میں حکم ملا کہ اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کر دیں۔ انہوں نے یہ خواب اپنے لخت جگر کو سنایا، حضرت اسمٰعیلؑ نے اللہ کے حکم کی تعمیل میں سر جھکا دیا۔


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔