Topics
حضرت ایوبؑ کے قصے میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ انہوں نے اللہ کی رضا کے لئے صبر کیا ہے۔ اور صبر حضرت ایوبؑ کی طرح تمام پیغمبروں کا شیوہ اور ان کی طرز فکر ہے۔ پیغمبروں کا وصف ہے کہ وہ تکلیف کے وقت صبر کرتے ہیں۔ اللہ کو اپنا ساتھی تصور کرتے ہیں اور تکلیف میں اللہ کی مصلحت ان کے پیش نظر رہتی ہے۔ اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرتے ہیں جبکہ ان کا حال، ان کا مال سب اللہ سے وابستہ رہتا ہے۔ حضرت ایوبؑ نے جو تکلیفیں برداشت کی ہیں اس کے پیچھے اللہ کی یہ حکمت محیط ہے کہ بندہ جب اللہ کے اوپر بھروسہ کر لیتا ہے اور اس کا یقین کامل ہو جاتا ہے تو بڑی سے بڑی تکلیف میں بھی شکوہ و شکایت زبان پر نہیں لاتا۔ اللہ تعالیٰ نے صبر کرنے والوں کی مثال دیتے ہوئے اپنے برگزیدہ پیغمبروں حضرت اسماعیلؑ ، حضرت ادریسؑ ، حضرت ذوالکفلؑ ، حضرت نوحؑ اور حضرت یعقوبؑ کا تذکرہ فرمایا ہے اور اپنے محبوب بندے باعث تخلیق کائنات حضرت محمد رسول اللہﷺ سے فرمایا ہے:
’’پس آپ صبر کیجئے جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیا،‘‘
ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتوں سے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے۔ انہیں ٹھہرائیں گے جنت کے بالا خانوں میں رواں ہونگی جن کے نیچے نہریں۔
اتنا عمدہ صلہ ہے نیک کام کرنے والوں کا۔ وہ جنہوں نے صبر کیا۔ اور صرف اپنے رب پر بھروسہ کئے ہوئے ہیں۔‘‘
صبر کے معنی
صبر کے لغوی معنی روکنے اور سہارنے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات نفس انسانی کی فطرت اور جبلت سے آگاہی کا پروگرام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں نفس انسانی کی کمزوریاں بیان کی ہیں کہ انسان نافرمان ہے۔ جلد باز ہے۔ جھگڑالو ہے۔ طبعاً کمزور ہے۔ کم حوصلہ ہے۔ ظالم اور جاہل ہے۔ تنگ دل ہے۔ حاسد ہے۔ نفس انسانی کی یہ ایسی کمزوریاں ہیں کہ کوئی شخص بھی ان کمزوریوں سے آزاد نہیں ہے۔ ان کمزوریوں کا پس منظر دنیوی چمک، ناتواں شعور اور جہالت ہے۔
جہالت کا مفہوم لا علمی ہے لیکن اللہ کے نقانون کے مطابق پوری زندگی علم ہے۔ علم مسلسل اور متواتر اطلاع ہے، اطلاع اور خبر حرکت ہے۔ حرکت اللہ کا امر ہے۔ اللہ کا امر ہے کہ جب وہ کسی شئے کے کرنے کا ارادہ کرلیتا ہے تو کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ اور وہ ہو جاتی ہے۔ امر ’’حکم‘‘ ہے اور حکم ہی اقتدار اعلیٰ ہے۔
اللہ صاحب اقتدار ہے
اقتدار کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی لمحہ اس کی گرفت سے باہر نہ ہو۔ اور ہر چیز اس کے احاطہ قدرت میں ہو۔ جذبات و احساسات بننے والی تمام اطلاعات تخلیق کے چھوٹے چھوٹے مراحل سے گزر کر اپنا مظاہرہ کرتی ہیں۔
قانون یہ ہے کہ جسم انسانی (Material Body) کے اوپر ایک جسم، جسم مثالی(Light Body) ہے۔ یہی جسم مثالی مادی جسم کو فیڈ کرتا ہے اور جسم مثالی کی طرف سے Feedingختم ہو جاتی ہے تو مادی جسم مر جاتا ہے۔ ہم اس مردہ جسم کو Dead Bodyکہتے ہیں۔ چونکہ تخلیق پروسیس کا سارا تعلق جسم مثالی سے ہے۔ اس لئے علم حاصل ہوتے ہوئے علم نہ سیکھنا اور علم کی طرف سے بے رغبتی کرنا جہالت ہے۔
جسم ماضی (Past) ، حال (Present) اور مستقبل (Future) کے ریکارڈ سے پوری طرح واقف ہوتا ہے۔ اس واقفیت کی بناء پر جسم مثالی مادی جسم کو صبر کی تلقین کرتا رہتا ہے۔ صبر کی تلقین سے مراد ہے وہ آدمی کے شعور کو انسپائر کرتا رہتا ہے کہ یہ تکلیف عارضی ہے جو گزر جانے والی ہے۔ اس انسپائریشن سے آدمی کے اندر مقابلہ کرنے کی جرأت اور ارادہ میں استحکام ہوتا ہے۔
جبکہ پریشانی کے وقت روشنیوں کے توازن میں اعتدال نہیں رہتا۔
حضرت ایوبؑ اللہ کے برگزیدہ پیغمبر ہیں۔ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ نوع انسانی کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ ہے اور جب بندہ صبر کر کے اللہ کو دل کے یقین کے ساتھ اپنا ہمدرد اور محبت کرنے والی ہستی مان لیتا ہے تو اللہ اس کے اوپر آرام و آسائش کے دروازے وسیع کر دیتا ہے اور ایسے وسائل فراہم کر دیتا ہے جس سے انسانی زندگی پر خوشیوں کے دریچےکھل جاتے ہیں۔
جیسے حضرت ایوبؑ کے لئے اللہ تعالیٰ نے چشمہ جاری کر دیا اور دونوں میاں بیوی جوان ہو گئے اور چار نسلوں تک اپنی نسل کو پھیلتے دیکھا۔
٭٭٭٭٭
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔