Topics
کائنات کی ہر مخلوق اور زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے نور میں ملفوف ہے، نور کا یہ غلاف نور کی لہروں کے تانے بانے سے بُنا ہوا ہے جو کہ طولاً و عرضاً ہیں یہ اتنی زیادہ ایک دوسرے میں پیوست ہیں کہ الگ الگ ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے الگ نظر نہیں آتیں زندگی ان ہی لہروں پر قائم ہے۔
انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس میں نور کا غلاف مرکب لہروں کے تانے بانے سے بنا ہوا ہے اصل انسان لاکھوں واٹ بجلی کی طرح روشن ہوتا ہے انسانی شعور اسے دیکھ کر معطل ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے آدمی بے ہوش ہو جاتا ہے لیکن روحانی شعور اس نور کو دیکھ لیتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر تھے اپنی روح سے واقف تھے لہٰذا ارادے کے تحت جب اپنا ہاتھ بغل میں رکھتے تو ہتھیلی میں ہزاروں واٹ بجلی چارج ہو جاتی تھی اور لوگ اس ماورائی روشنی کو دیکھ کر چندھیا جاتے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے روحانی علوم عطا کئے گئے تھے۔ علم ایسی روشنی ہے جو طرز فکر کے ساتھ منتقل ہوتی ہے۔
روحانی علوم کی دو شاخیں ہیں:
استدراج
علم حضوری
رحمانی طرز فکر اور شیطانی طرز فکر
وہ تمام علوم جو آدمی شیطانی طرز فکر اور شیطانی صلاحیتوں کو بیدار کر کے سیکھتا ہے استدراج ہے، استدراج حاصل کرنے کیلئے بھی ذکر و اشغال کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہ علم بھی محنت و مشقت سے حاصل ہوتا ہے۔
علم حضوری حاصل کرنے کے لئے بھی بڑے بڑے مجاہدے اور ریاضتیں کرنی پڑتی ہیں جس طرح ایک روحانی آدمی سے کوئی کرامت صادر ہوتی ہے اسی طرح استدراجی علوم جاننے والے سے خرق عادت صادر ہوتی ہے، استدراجی اور شیطانی علوم سے خرق عادت کا صادر ہونا قرآن پاک سے ثابت ہے۔
فرعون نے اپنے ملک کے تمام ماہر جادوگروں کو طلب کیا اور ایک مقررہ دن حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مقابلہ کے لئے مقرر ہوا، علم استدراج کے ماہرین اور جادوگر جمع ہو گئے وہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی موجود تھے، سوال کیا گیا کہ اے موسیٰ! پہل آپ کی طرف سے ہو گی یا ہماری طرف سے؟ جلیل القدر پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
’’اے جادوگر! تم پہل کرو۔‘‘
جادوگروں نے رسیاں پھینکیں جو سانپ بن گئیں اور بانس پھینکے جو اژدھے بن گئے، اللہ کریم نے ارشاد فرمایا:
’’اے موسیٰ! ڈرنے اور غمگین ہونے کی ضرورت نہیں میں تیرے ساتھ ہوں تو اپنا عصا پھینک دے۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا زمین پر پھینک دیا جو ایک بڑا اژدھا بن گیا اور اس نے تمام سانپوں اور اژدھوں کو نگل لیا اور اس طرح علم استدراج کے ماہرین جادوگروں پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فتح حاصل ہو گئی۔
غور طلب بات یہ ہے کہ جادوگروں نے رسیاں پھینکیں تو رسیاں سانپ بن گئیں، بانس اژدھے بن گئے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے لاٹھی پھینکی تو وہ اژدھا بن کر سارے سانپوں اور سارے اژدھوں کو نگل گئی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ کی نصرت سے سارے جادوگروں پر غلبہ حاصل ہو گیا۔ علم کے دو درجے ہیں۔
۱۔ علم کی غرض و غایت، زر پرستی، جاہ طلبی اور دنیاوی عزت و وقار ہو۔
۲۔ علم کی غرض و غایت اور مقصد اللہ کے سوا کچھ نہ ہو ہمیشہ اللہ کی خوشنودی پیش نظر ہو۔
اللہ کا فرستادہ بندہ جو دیکھتا ہے جو سنتا ہے وہ اللہ کی معرفت دیکھتا اور سنتا ہے، دولت پرستی اور دنیاوی لالچ سے دور رہتا ہے، ذہن میں یہ بات نہیں آتی کہ لوگ مجھ سے مرعوب ہوں۔ وہ جو کچھ کرتا ہے اللہ کے لئے کرتا ہے اللہ کے لئے جیتا ہے اور اللہ کیلئے مرتا ہے اور اللہ کی معرفت سوچتا ہے۔
حرص و لالچ
اس کے برخلاف استدراج والے لوگ اپنے کارنامے دکھا کر دنیا حاصل کرتے ہیں۔ فرعون نے جادوگروں کو طلب کر کے کہا:
’’ اگر تم نے موسیٰ کو زیر کر دیا تو میں تمہیں مالا مال کر دونگا اور تمہیں اپنا مصاحب بنا لوں گا۔‘‘
اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ جادوگروں نے جادو کے ذریعے جو کارنامے انجام دیئے اس کے پیچھے دنیاوی اغراض اور دنیا پرستی تھی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام محض حق کے غلبے کے لئے اور اللہ کی عظمت و جبروت ظاہر کرنے کے لئے تشریف لائے۔
اللہ تعالیٰ کا حکم:
’’ڈر مت اپنی لاٹھی پھینک دے۔‘‘
یہ ثابت کرتا ہے کہ جادوگروں نے میدان میں جو جادو جگایا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام محض اللہ کے بھروسہ پر ان بڑے بڑے طاقتور جادوگروں کے سامنے جا کھڑے ہوئے، جادوگروں نے جس خرق عادت کا مظاہرہ کیا وہ محض فریب اور فکشن تھا اس لئے کہ جب موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی نے ان کو نگل لیا تو ان کا فریبی وجود ختم ہو گیا لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا برقرار رہا۔
معجزہ اور جادو میں یہ فرق ہے کہ جادو کا اثر عارضی ہوتا ہے۔
قانون
جادو کے زور سے بنے ہوئے سانپ اور جادو کے زور سے بنے ہوئے اژدھے سب ختم ہو گئے اور موسیٰ کی لاٹھی موجود رہی۔ اس واقعہ سے انکشاف ہوتا ہے کہ طرز فکر اگر غیر حقیقی ہے تو عارضی ہے، طرز فکر اگر حقیقی ہے تو حقیقت ہے، حقیقت میں ردوبدل نہیں ہوتا۔
گرو جب اپنے چیلے کو استدراجی علوم سکھاتا ہے تو چیلے کے اندر اپنی طرز فکر منتقل کر دیتا ہے۔ تخریبی طرز فکر سے چیلا گرو کا قائم مقام تو بن جاتا ہے لیکن حقیقت سے تہی دست ہو جاتا ہے اور جب کوئی بندہ پیغمبروں کے طرز فکر سے علوم حاصل کرتا ہے تو حقیقت آشنا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ حقیقت حقیقت سے گلے مل جاتی ہے۔
تاریخ میں ایسی ایک مثال نہیں ملتی کہ کسی بندے نے جو حقیقی طرز فکر کا حامل تھا علم استدراج کی طرف رجوع کیا ہو اور ایسی ہزاروں مثالیں ہیں کہ علم استدراج کے بڑے بڑے ماہر اور جادوگر اسلام کی حقانیت قبول کر کے حق آشنا اور حق پرست بن گئے۔
’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔‘‘ اس نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق اس میں ایک چراغ، چراغ شیشے میں، شیشہ جیسے ایک تارا جھل مل کرتا، تیل جلتا ہے اس میں برکت والے درخت کا اور وہ درخت زیتون ہے، نہ سورج نکلنے کی طرف اور نہ ڈوبنے کی طرف لگتا ہے اس کا تیل بھڑک اٹھے ابھی نہ لگی ہے اس کو آگ نور علی نور، اللہ رہنمائی کرتا ہے اپنے نور کی جس کو چاہے وہ اللہ مثالوں سے لوگوں کو سمجھاتا ہے اور ہر وہ شئے اللہ کے علم میں ہے۔‘‘
(النور۔۳۵)
سائنسی ترقی سے ماورائی باتیں سمجھنا اب آسان ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو توریت عطا کی جو تختیوں پر لکھی ہوئی تھی۔
یورپ میں بڑے بڑے اسٹوروں پر پیسے وصول کرنے کے لئے ایک کیش مشین ہوتی ہے اس مشین کو ڈبے پر لکھے ہوئے ہندوں کے سامنے رکھتے ہیں۔ مشین سے سرخ رنگ کی روشنی کا انعکاس ہوتا ہے اور کمپیوٹر پر اس کی رقم آ جاتی ہے اسی طرح فیکس مشین فضا میں تیرتی لہروں کو قبول کر کے کاغذ پر منتقل کر دیتی ہے۔ یہ ایجاد اس دماغ کی ریسرچ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے اور اللہ نے اس ایجاد کو سائنٹسٹ کے ذہن میں انسپائر کیا، اللہ کے لئے کوئی کام مشکل نہیں کہ پتھروں کی تختیوں پر اپنے احکامات نقش کر دے، کائناتی فضا اور کائناتی خلاؤں میں ہم براہ راست نہیں دیکھ سکتے لیکن جب اللہ کی دی ہوئی عقل و شعور سے سائنسدانوں نے تحقیق کی تو لہروں پر قائم فارمولا دماغ کی اسکرین پر ڈسپلے ہو گیا اور انسان نے فیکس مشین بنا لی۔ فیکس مشین کیا ہے؟ فضا میں تیرتی ہوئی لہروں کو قبول کر کے کاغذ پر منتقل کرنے والی مشین کا نام فیکس مشین ہے۔ یہی مثال کمپیوٹر اور ٹی وی کی بھی ہے، پورا لاسکی نظام اس ملکی وے پر رواں دواں ہے ہم جب ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں تو آواز کی لہریں ہمارے کانوں سے ٹکراتی ہیں اگر آواز کی لہریں نہ ہوں یا ان لہروں کو ڈسپلے کرنے والے کان نہ ہوں تو فریقین آواز نہیں سن سکتے، کائنات کی ساخت سے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اللہ آسمان و زمین کا نور ہے۔‘‘
یعنی آسمانوں اور زمین پر موجود ہر شئے کے اندر اللہ کا نور کارفرما ہے۔
مادہ روشنی ہے
مادہ بھی روشنی ہے، آسمانوں اور زمین کی ہر شئے روشنی کی مختلف صورتیں ہیں، انسان یا دنیا کی ہر تخلیق روشنیوں کی ظاہری صورت ہے جس ظاہری صورت کو جسم کہا گیا ہے۔ اس جسم کی حرکت روشنیوں کی تابع ہے۔ ان روشنیوں کو عرف عام میں روح یا (Soul) کہتے ہیں۔ روح جس جس عالم میں جاتی ہے اس عالم میں اپنی صلاحیتوں اور علوم کے مظاہرے کے لئے ایک جسم یا خول اپنے اوپر پہن لیتی ہے۔
مادی جسم مٹی کے ذرات سے بنا ہوا ہے اور مٹی کے ذرات کی نیچر خلاء ہے۔ ان خلاؤں میں روح کی روشنیاں جذب ہو کر جسم کو برقرار رکھتی ہیں جیسے ہی روشنیاں خلاؤں سے باہر نکل جاتی ہیں مٹی کے ذرات بکھر جاتے ہیں، روح کی روشنیاں ہی حواس بنتی ہیں، روح اپنی روشنیوں کا مظاہرہ کرنے کے لئے مٹی کے ذرات کو بطور اسکرین یا لباس استعمال کرتی ہے، جب روح کا کام پورا ہو جاتا ہے تو وہ زمین پر اپنا مظاہرہ نہیں کرتی یہی مرحلہ موت ہے۔
اللہ رب العالمین کو خیال آیا کہ کائنات بنائی جائے اس نے ارادہ کیا اور کائنات تخلیق ہو گئی یعنی کائنات تخلیق کرنے کا مظاہرہ کائنات ہے، کائنات میں بے شمار مخلوقات ہیں ہر مخلوق میں ان گنت افراد ہیں، ہر فرد کے اندر دو قسم کے شعور کام کر رہے ہیں۔ ایک شعور انفرادیت ہے اور دوسرا اجتماعیت ہے، اجتماعی شعور سے انفرادی شعور فیڈ ہو رہا ہے۔ دماغ ایک ایسی مشین ہے جو انفرادی سطح پر کل ذات کی انفارمیشن کو وصول کرتی ہےاور اس کے ساتھ ہی اجتماعی یا نوعی سطح پر ایک ذات کی انفارمیشن کو کل ذات تک پہنچاتی ہے اس سارے عمل کو انتقال خیال کہتے ہیں۔ چنانچہ کائنات کی ہر شئے کے اندر انتقال خیال کا یہ دہرا عمل جاری و ساری رہتا ہے اور یہی عمل کائنات کو حرکت میں رکھے ہوئے ہے، کائنات کے ہر فرد اور ہر دماغ میں سے خیال کی روشنی نکل بھی رہی ہے اور دماغ کے اندر جذب بھی ہو رہی ہے اس طرح یہ خیالات ساری کائنات سے ایک فرد سے دوسرے فرد میں ٹرانسفر ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم زمین پر رہتے ہوئے بھی آسمان کی مخلوق سے واقف ہیں۔ آدمی کے اندر ریسیور جتنا زیادہ طاقتور ہوتا ہے اتنا ہی خیالات کو اور ان کے اندر انفارمیشن کو قبول کرتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔