Topics
سائنسدان کے مطابق زمین تہہ در تہہ پیاز کے چھلکوں کی طرح بنی ہوئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آبادی زمین کی بیرونی سطح پر ہے جسے Crustکہا جاتا ہے۔ Crustکی موٹائی محض کسی فٹ بال پر چپکے ہوئے کاغذ جتنی ہے۔ زمین کی زیادہ دبازت Thicknessخشکی پر تقریباً پچاس کلومیٹر ہے اور سمندروں میں کم و بیش پانچ کلو میٹر ہے۔ یہ حصہ خشکی پر بسالٹ اور سمندر میں گریفائٹ کی چٹانوں پر مشتمل ہے۔ Crustکے نیچے غلاف ہے جس کی دبازت تقریباً دو ہزار نو سو کلومیٹر ہے اور زمین کا 82%حجم اسی پر مشتمل ہے۔ غلاف کے نیچے زمین کا دل Coreہے اس کے تین حصے ہیں۔ ۱۔اوپری دل، ۲۔اندرونی دل، ۳۔قلب اوپری دل، تقریباً دو ہزار دو سو کلو میٹر گہرا ہے جبکہ اندرونی دل 1270کلومیٹر ہے زمین کی تہوں پر دو طبعی عوامل دباؤ اور درجہ حرارت اثر انداز ہوتے ہیں۔ درجہ حرارت وہ عمل ہے جو چٹانوں کو یا تو نرم کر دیتا ہے یا پگھلا دیتا ہے۔ زمین کے اندر بڑا حصہ ایسا ہے جو حرارت کی شدت سے سفید ہو گیا ہے اس حصہ کو وہ توانائی حرارت فراہم کرتی ہے جو چٹانوں میں موجود تابکار عناصر خارج کرتے ہیں زمین کے مرکز میں درجہ حرارت تقریباً تین ہزار سینٹی گریڈ بتایا جاتا ہے جبکہ قشر اور غلاف کے درمیانی حد کا درجہ حرارت 375سینٹی گریڈ ہے۔
دباؤ وہ عامل ہے جو چٹانوں کو ٹھوس بنا دیتا ہے۔ جتنی گہرائی میں اتریں گے اوپری تہوں کا دباؤ اتنا ہی بڑھ جائے گا زمین کی سطح پر موجود چٹانیں جو ٹھوس دکھائی دیتی ہیں ان چٹانوں کے مقابلے میں جو زمین کے اندر ہیں نرم ہیں۔ ارضیات دان اوپری تہہ کو (جو قشر اور بالائی غلاف پر مشتمل ہے) ’’پتھریلا کرہ‘‘ (Litho Sphere) کہتے ہیں اور اس کی حد تقریباً ۷۰ کلومیٹر ہے۔ اس کے بعد کمزور کرہ (Aleshino Sphere) ہے جہاں تابکار توانائی کی وجہ سے چٹانیں پگھل چکی ہیں اور چٹانوں کا پگھلا ہوا گرم مائع بہہ رہا ہے۔ یہ تہہ دو سو کلومیٹر تک موجود ہے۔
کمزور کرّہ کے بعد وسطی کرہ کا علاقہ ہے اس جگہ بے پناہ حرارت کے باوجود دباؤ اس قدر زیادہ ہے کہ چٹانیں اور عناصر ٹھوس حالت ہی میں ہیں۔ وسطی کرہ کے اندر زمین کا دل ہے جو کہ خام لوہے پر مشتمل ہے اور اس میں نکل اور کوبالٹ کی آمیزش ہے یہ عناصر مائع حالت میں ہیں لیکن بے حد کثیف ہیں جبکہ اندرونی دل ٹھوس حالت میں ہے۔
باوجودیہ کہ ارضیات دانوں نے زمین کی گہرائی سے چٹانیں نکال لی ہیں لیکن ابھی تک کوئی بھی زمین کے غلاف تک نہیں پہنچ سکا۔
زمین کے اندرونی حصوں کا اندازہ ارضیات دان ان لہروں یا موجوں سے لگاتے ہیں جو دباؤ، جھٹکے یا زلزلے سے پیدا ہوتی ہیں، یہ لہریں زمین کی اندرونی تہوں میں چٹانوں کے ٹوٹنے پھوٹنے اور سرکنے سے پیدا ہوتی ہیں بعض اوقات قشر ارض کے زیریں پرتوں میں ایسی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں جن کے نتیجے میں زمین کے اندر توانائی جمع ہو جاتی ہے۔ یہ توانائی یا دباؤ جب ارد گرد چٹانوں کے لئے ناقابل برداشت ہو جاتی ہے تو منہ زور دھماکوں اور خوفناک گڑگڑاہٹ کے ساتھ کسی کمزور زمینی تہہ کی سمت بہہ نکلتی ہے۔
آتش فشاں زلزلے زیر زمین ابلتے ہوئے مادے Magmaکے اچانک باہر نکلنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ گرم لاوا دھانے کے گرد مخروطی شکل کا تودہ بنا دیتا ہے اسے آتش فشاں پہاڑ کہتے ہیں۔ زمین کے اندر گرم سیال مادہ زمین کی اوپر سطح کی طرف آتا ہے کسی طرح سے (یہی وجہ ہے کہ بیشتر تباہ کن زلزلے بحیرہ روم کے نواحی ممالک، بحرالکاہل کے ساحلی علاقوں اور جزائر جاپان میں آتے ہیں) پانی اس مادے تک پہنچ جائے تو بھاپ بن جاتا ہے۔ آتش فشاں پہاڑ سے نکلنے والے بخارات میں سب سے زیادہ کثرت بھاپ کی ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھاپ ہی وہ بنیادی اور متحرک طاقت ہے جو دوسرے مادوں اور گیسوں کو زور سے باہر دھکیلتی ہے، ان مادوں میں کلورین، گندھک، پگھلا ہوا لوہا اور گیسوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ عام ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔