Topics

حضرت محمد رسول اللہﷺ

بعثت سے پہلے 

رسولﷺ کی بعثت سے پہلے پوری دنیا میں تاریکی پھیلی ہوئی تھی، عالم دنیا پر وحشت و درندگی کا غلبہ تھا۔ معاشرہ میں مظلوم کی کوئی داد رسی نہیں تھی، قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا، کبر و نخوت سے گردنیں اکڑ گئیں تھیں، انسانیت نزع کے عالم میں سسک رہی تھیں، تہذیب، حسن سلوک اور صلہ رحمی مفقود ہو گئی تھی، اخلاق بداخلاقی کے پردے میں چھپ گیا تھا۔ آدمی نے انسانیت کی جگہ حیوانی قدروں کو اپنا لیا تھا، عقل میں فتور نے عوام و خاص کو بت پرستی میں مبتلا کر دیا تھا، خود ساختہ، لکڑیوں، پتھروں اور مٹی کی مورتیوں کے آگے لوگ سجدہ کرتے تھے اور ان سے مرادیں پوری ہونے کی دعائیں کرتے تھے، ان بتوں پر کتے پیشاب کر دیتے تھے لیکن انہیں پھر بھی عقل نہیں آتی تھی، خود ساختہ معبودوں پر دودھ کا چڑھاوا چڑھاتے تھے، ان کے اوپر مکھیاں بھنبھناتی تھیں لیکن شرک کا غلبہ اتنا زیادہ تھا کہ مشرکین نہیں سوچتے تھے کہ جس کی عبادت کرتے ہیں اس میں اتنی بھی طاقت نہیں کہ اپنے اوپر بھنکتی ہوئی مکھیاں اڑا دیں، شیطنیت ان کے خون کے ساتھ دوڑتی تھی، زمین پر اتنا فساد پھیل گیا تھا کہ زمین بے تاب ہو گئی، اس نے رب العالمین سے التجا کی کہ اپنے محبوب بندے کو بھیج دے تا کہ زمین برباد نہ ہو، زمین کی کوکھ سے نکلنے والے شرارے بجھ جائیں اللہ کی مخلوق کو آرام مل جائے، اجارہ داری ختم ہو جائے، زمین پر دہکتا جہنم گل و گلزار بن جائے، چالاک اور عیار لوگوں کی گردنیں ٹوٹ جائیں سرمایہ دارانہ نظام کی جکڑنوں سے عوام کو آزادی مل جائے۔

اس دور میں مشرق، مغرب، شمال اور جنوب میں لوگوں کی زندگی عذاب بنا دی گئی تھی، ایران اور دوسرے ملکوں کا عالم یہ تھا کہ ایران کے لوگ توحید سے منحرف ہو گئے تھے، شرک گھٹی میں پڑ گیا تھا، روشنی، شفاف آسمان، آگ، بارش، چاند، سورج، ستارے کی پرستش کی جاتی تھی، مختلف قبائل کے الگ الگ خدا تھے، سیاست اور قیادت خواص اور مذہبی دانشوروں کے لئے مخصوص ہو گئی تھی، ملک میں جاگیردار اور امراء پر تعیش زندگی گزارتے تھے، عوام ان کے آگے جھکتے تھے ان کے پیر چھوتے تھے، خود مختار بادشاہ ظالم تھا جس کو چاہتا سولی پر لٹکا دیتا تھا، کسی میں یہ جرأت نہیں تھی کہ بادشاہ کے ظالمانہ فعل پر احتجاج کر سکے۔ اگر باپ کے سامنے اولاد کو بادشاہ کے حکم سے تہہ تیغ کر دیا جاتا تب بھی باپ بادشاہ کی تعریف کرتا اور کورنش بجا لاتا، عوام کا (Brain Wash) کر دیا گیا تھا اور ذہن میں یہ بات راسخ کر دی گئی تھی کہ بادشاہ ہر فیصلہ اللہ کی مرضی سے کرتا ہے، نئے نئے ٹیکس لگانا حکومت کا محبوب مشغلہ تھا، احتجاج کرنے والوں کی معمولی سزا قتل تھی، بادشاہوں کی حفاظت کے لئے اتنے سخت انتظامات تھے کہ قریبی رشتے دار بھی اجازت کے بغیر بادشاہ سے ملاقات نہیں کر سکتے تھے، محل کے اطراف میں سڑکوں پر مسلح سپاہی گشت پر رہتے تھے، محلات میں بڑے بڑے کمرے ہوتے تھے لیکن بادشاہ اور ملکہ کا بیڈ روم چھوٹا بنایا جاتا تھا تا کہ کوئی پرندہ پر بھی نہ مار سکے۔ بادشاہ زربفت اور کم خواب کا لباس پہنتا تھا، کپڑا سونے، چاندی کے تانے بانے سے بنا جاتا تھا، سونے کے تاج میں زمرد یاقوت اور موتی جڑے ہوتے تھے، تاج کا وزن اڑھائی من تک تھا۔ یہ تاج سونے کی باریک زنجیروں سے دربار میں بادشاہ کے سر پر لٹکا رہتا تھا، کم و بیش سو کلو وزنی تاج دیکھنے والوں کو اس طرح نظر آتا تھا کہ جیسے تاج بادشاہ کے سر پر رکھا ہوا ہے، امراء کے پاس ملک کی ساری دولت ذخیرہ ہو گئی تھی، عوام غربت کی چکی میں پستے تھے، تنگ دستی اور افلاس نے ان کا خون نچوڑ لیا تھا، جگہ جگہ کلب قائم تھے، مراعات یافتہ طبقہ کی عورت کسی ایک شخص کی منکوحہ بن کر نہیں رہ سکتی تھی کیونکہ یہ بات اس دور کے فیشن کے خلاف تھی، اعلیٰ تعلیم کا حصول مالدار طبقہ تک محدود تھا، قیدیوں کے زخموں پر لیموں اور سرکہ چھڑکا جاتا تھا، آنکھوں میں سلاخیں پھیری جاتی تھیں، منہ آنکھوں اور نتھنوں میں سرکہ میں ڈوبی ہوئی روئی رکھی جاتی تھی، سب سے زیادہ دہشت ناک عذاب ’’موت‘‘ تھا جس میں جلاد پہلے قیدی کے ہاتھوں کی انگلیاں کاٹتا تھا پھر پاؤں کی انگلیاں کاٹتا تھا اس کے بعد کلائیوں تک ہاتھ اور ٹخنوں تک پیر کاٹتا تھا پھر کہنیوں تک باہیں اور گھٹنوں تک پنڈلیاں تیز خنجر سے الگ کرتا تھا، ناک اور کان کاٹنے کے بعد آخر میں تن سے سر قلم کیا جاتا تھا۔

اہل روم روحوں کی پرستش کیا کرتے تھے لیکن مذہبی رسومات ادا کرنے کا کوئی دستور نہ تھا، پتھروں کے بنائے ہوئے دیوتا اپنی پرستش کے لئے شہر شہر گھومتے رہتے تھے، دیوتاؤں کو مقررہ مقامات تک پہنچانا حکومت کی ذمہ داری تھی۔ آبادی دو طبقوں پر مشتمل تھی، ایک طبقہ امراء اور مراعات یافتہ لوگوں کا تھا اور دوسرا عوام کا تھا، حکومت کے فرائض انجام دینے کے لئے کارندے امراء میں سے لئے جاتے تھے۔ قرضوں کے متعلق ایسے قوانین بنائے گئے تھے کہ غریب کسی طرح قرض ادا نہیں کر سکتا تھا نتیجہ میں انہیں قرض ملتا ہی نہیں تھا، امراء کے لئے کروڑوں کے قرضے معاف کر دیئے جاتے تھے اور غریبوں سے ایک ایک پائی وصول کی جاتی تھی، تعلیم کے لئے سرکاری خزانے سے ایک پائی خرچ نہیں کی جاتی تھی، وہی بچے تعلیم حاصل کرتے تھے جن کے سرپرست امیر تھے۔

وہ لوگ کھانا کھا کر قے کر کے پیٹ خالی کر لیتے تھے تا کہ دوسری مرتبہ لذیذ کھانوں سے لطف اندوز ہو سکیں، کہاوت تھی کہ مزا کھانا کھانے میں ہے ہضم کرنے میں نہیں۔ بے روزگاری عام تھی نصف سے زیادہ آبادی بھیک پر گزارا کرتی تھی۔ یہ لوگ حیات بعد الممات کے قائل تھے ان کا عقیدہ یہ تھا کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جاتا ہے اور اعمال کے مطابق جزا و سزا دی جاتی تھی، چنانچہ مردوں کی تدفین کے وقت عجیب و غریب رسمیں پوری کی جاتی تھیں، پہاڑ توڑ کر وسیع و عریض احاطے میں قبر بنائی جاتی تھی، قبر کے ساتھ ساتھ کئی کمرے بنائے جاتے تھے جس کمرے میں بادشاہ کی ممی رکھی جاتی تھی اس کے دائیں بائیں کمروں میں بادشاہ کے استعمال کا سامان رکھ دیا جاتا تھا اس سامان میں سونے کے زیورات، سونے کا تخت، سونے کی کرسی، برتنوں کی الماری مختلف اجناس اور پانی سے بھرے مٹکے بھی رکھے جاتے تھے، ان کا نظریہ یہ تھا کہ بادشاہ جب دوبارہ زندہ ہو گا تو اس سامان کو استعمال کرے گا، کنیزوں اور خدام کو کمروں میں دیوار کے ساتھ کھڑا کر دیا جاتا تھا اور دروازے کی جگہ دیوار چن دی جاتی تھی اس بات کا اہتمام کیا جاتا تھا کہ کمروں میں کسی طرح بھی آکسیجن اور ہوا کا گزر نہ ہو۔

رسولﷺ کی بعثت سے پہلے ہندوستان میں جن باطل معبودوں کی پرستش کی جاتی تھی ان کی فہرست بہت طویل ہے، ڈائیوس(Dyavs) درخشندہ آسمان کا دیوتا ہے۔

دوسرا وارونا(Varuna) جو آسمان کی نمائندگی کرتا ہے۔

تیسرا دیوتا آسمان کی طرح ہے اس کا نام وشنو(Vishnu) ہے۔ مقدس کتاب وید صرف برہمن پڑھ سکتا تھا، کھتری اور چھوٹی ذات کے لوگ وید نہیں پڑھ سکتے تھے، انہیں صرف ’’وید‘‘ کے اشلوک سننے کی اجازت تھی، عورت کی کوئی حیثیت نہیں تھی، یہ وسوسہ عقیدہ بن گیا تھا کہ بیوی کی زندگی میں شوہر اس لئے مر جاتا ہے کہ بیوی نے کوئی گناہ کیا ہے، بیوہ خاتون کو دوسری شادی کی اجازت نہیں تھی، مذہبی عقیدہ بن گیا تھا کہ عورت کی عزت اس میں ہے کہ خاوند کی ارتھی کے ساتھ بیوی بھی جل کر راکھ ہو جائے۔ شودروں کا سایہ کنویں پر پڑ جاتا تو کنواں خالی کر کے اس کو پاک کیا جاتا تھا۔ اگر قاتل برہمن ہوتا اور مقتول کسی اور طبقہ سے ہوتا تو برہمن سے قصاص نہ لیا جاتا وہ صرف روزہ رکھ کر کفارہ ادا کر دیتا تھا، ہیجان خیز تصویریں دیواروں پر پینٹ کی جاتی تھیں، لوگ ان عریاں تصویروں کو پوجتے تھے۔

رسول اللہﷺ کی بعثت سے پہلے پورے عرب میں انتشار تھا، بے حیائی عروج پر تھی، اہل عرب اخلاق سوز حرکتوں پر فخر کرتے تھے، خواتین کو آمدنی کا ذریعہ بنا لینا محبوب مشغلہ تھا، عورتوں اور بچوں کو وراثت میں حصہ نہیں ملتا تھا، کٹنیوں کے ذریعہ بیوہ عورت پر مرحوم شوہر کا قریبی رشتے دار اگر چادر ڈلوا دیتا تھا تو بیوہ عورت اس کی بیوی بن جاتی تھی، زندہ لڑکیوں کو دفن کر دینا یا کنویں میں دھکیل دینا شرافت سمجھی جاتی تھی۔

عرب میں بت پرستی عام تھی، ہر قبیلہ کا الگ بت تھا۔ اگر ایک قبیلے کی دوسرے قبیلے سے دشمنی ہو جاتی تو اس کے بتوں سے بھی عداوت و نفرت کی جاتی، زندہ جانور کے جسم سے گوشت کاٹ کر کھایا جاتا تھا۔ انسانی حقوق کے لئے کوئی دستور نہیں تھا۔ قتل، رہزنی حبس بیجا، ناجائز تصرف، مداخلت بے جا عام روش تھی۔

رسول اکرمﷺ کی بعثت سے پہلے اہل عرب خود سر تھے، بے کاری اور کاہلی ان کا طرہ امتیاز تھی۔ لٹریسی ریٹ (Literacy Rate) اتنا کم تھا کہ اسے اعداد و شمار میں فیصد کے حساب سے بیان نہیں کیا جا سکتا، چند افراد کے علاوہ اکثریت جاہل تھی۔ قرآن اور تمام آسمانی کتابوں میں ایک بات مشترک ہے کہ ہر پیغمبر نے توحید کا درس دیا ہے۔ ہر پیغمبر نے دوسرے پیغمبروں کی تعلیمات کی تصدیق کی ہے۔ ہر دور کے پیغمبر نے خوشخبری سنائی ہے کہ ہمارے بعد ایک نجات دہندہ آئے گا۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کے اعلان کے بعد بالآخر سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اوپر اپنا کلام نازل فرمایا، خود اللہ تعالیٰ نے اپنے برحق نبی کی توصیف و تصدیق کی اور رسول اللہﷺ نے یہ اعلان کیا:

’’میں کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا ہوں، میرے بھائی پیغمبروں نے اللہ کا جو پیغام دیا ہے میں بھی اسی کا اعادہ کر رہا ہوں، اللہ ایک ہے واحدہ لاشریک ہے، تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق ہے میں تصدیق کرتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔‘‘


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔