Topics

سامری کی فتنہ انگیزی

بنی اسرائیل کے قافلے میں شامل سامری نے فتنہ انگیزی کو فروغ دیا۔ اس نے سونے کے زیورات کو ڈھال کر ایک بچھڑا بنا دیا۔ اس سونے کے بچھڑے کے بت کے اندر ایک پراسرار گھنٹی نصب کر دی جو خود بخود بجنے لگتی اور بیل کی آواز نکالتی۔ سامری نے بنی اسرائیل کے سامنے سونے کے بچھڑے کو پیش کرتے ہوئے کہا! موسیٰ خدا کو تلاش کرنے پتہ نہیں کہاں گئے ہیں جبکہ تمہارا خدا تو یہ ہے۔ لہٰذا بنی اسرائیل نے بچھڑے کی پرستش شروع کر دی۔ حضرت ہارونؑ نے انہیں باطل عمل سے روکنے کی کوشش کی۔
آپ نے فرمایا کہ:
’’اس سے تمہاری آزمائش مقصود ہے۔ تمہارا پروردگار تو اللہ ہے۔ اس ہی کی پرستش کرو۔‘‘
لیکن قوم بجائے اس کے کہ آپ کی بات مانتی آپ کی دشمن بن گئی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور سے واپس آئے اور آپ کو بت پرستی کا علم ہوا تو جلال میں آ گئے۔ بنی اسرائیل سے باز پرس کرنے لگے۔ لوگوں نے اپنی گمراہی کو سامری پر ڈال دیا۔ اور کہا کہ ہمیں سامری نے گمراہ کر دیا تھا۔ حضرت ہارونؑ سے باز پرس کی اور ان کے سر اور داڑھی کے بال پکڑ کر پوچھا کہ تم تو حق آشنا تھے۔ اللہ کا عرفان تمہیں حاصل تھا۔ تم نے ایسا کیوں ہونے دیا۔ حضرت ہارونؑ نے تمام صورت حال حضرت موسیٰ پر واضح کی۔ حضرت موسیٰ ؑ نے بارگاہ ایزدی میں سر بسجود ہو کر معافی طلب کی۔
’’اے میرے رب! مجھے اور میرے بھائی کو معاف فرما اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر، تو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے۔‘‘
(سورۃ اعراف۔ ۱۵۱)
اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسی ٰعلیہ السلام کو حکم دیا کہ آپ اپنے ہمراہیوں اور بنی اسرائیل کے ساتھ فلسطین کی طرف روانہ ہو جائیں۔ تو آپ نے قوم کو اللہ کا حکم سناتے ہوئے فلسطین کی طرف روانگی کا مژدہ سنایا۔ فلسطین کی سرحد سے کچھ پہلے بنی اسرائیل کے قافلے نے پڑاؤ ڈالا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارہ افراد پر مشتمل ایک وفد فلسطین کی طرف وہاں کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے روانہ کیا۔ وفد نے واپس آ کر وہاں کے لوگوں کے متعلق بتایا کہ وہ بہت جنگجو اور بہادر ہیں ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لیکن وفد کے اراکین میں شامل حضرت یوشع نے قوم کا حوصلہ بلند کرنے کے لئے کہا کہ اللہ کی مدد اور نصرت ہمارے ساتھ ہے۔ اس جہاد میں انشاء اللہ ہم فتحیاب ہونگے۔ لیکن بنی اسرائیل نے بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہاد سے انکار کر دیا۔
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر سزا کے طور پر عرض فلسطین چالیس سال کے لئے حرام کر دی اور فرمایا کہ تم اس عرصے میں دشت صحرا میں بھٹکتے پھرو گے۔ اس عرصے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام اپنی قوم کی اصلاح کا کام کرتے رہے اور انہیں ہدایت کا راستہ دکھاتے رہے۔ صحرا نوردی کے دوران بنی اسرائیل کا سامنا اموریوں، ادومیوں، عمالقہ، مد آب اور مدیانیوں سے بھی ہوا۔ ان اقوام سے مقابلوں اور صحرا نور دی نے بنی اسرائیل کو تقریباً تباہ و برباد کر دیا۔
اسرائیلی قافلے بھٹکتے ہوئے ادوم کی سرحد کے قریب تہہ کے میدان میں پہاڑ کی اس چوٹی کے قریب پہنچے جو ’’ہور‘‘ کے نام سے مشہور تھی تو حضرت ہارونؑ کے انتقال کا وقت آ پہنچا۔ آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہمراہ ہور طور پر چڑھ گئے اور عبادت الٰہی میں مصروف ہو گئے۔ اسی حالت میں آپ کی روح مستقل حضوری میں چلی گئی۔ آپ کی عمر ۱۲۳ برس ہوئی۔ آپ کے چار بیٹے تھے۔ دو عالم جوانی میں انتقال کر گئے اور آپ کی وفات کے وقت موجود تھے۔
’’اور بنی اسرائیل کی ساری جماعت قارس سے روانہ ہو کر کوہ ہور پہنچی اور خداوند نے کوہ ہور پر جو ادوم کی سرحد سے ملا ہوا تھا۔ موسیٰ اور ہارون سے کہا، ہارون اپنے لوگوں میں جا ملے گا کیونکہ وہ اس ملک میں جو میں نے بنی اسرائیل کو دیا ہے جا نہیں پائے گا۔‘‘
(توراۃ)
’’اور ہم نے موسیٰ اور ہارون پر احسان کیا، ان کو اور ان کی قوم کو کرب عظیم سے نجات دی۔ انہیں نصرت بخشی جس کی وجہ سے وہ غالب رہے، ان کو نہایت واضح کتاب عطا کی انہیں راہ راست دکھائی اور بعد کی نسلوں میں ان کا ذکر خیر باقی رکھا۔ سلام ہے موسیٰ اور ہارون پر۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں، درحقیقت وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔‘‘
(سورۃ الصٰفٰت: ۱۱۴۔۱۲۲)


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔