Topics

حضرت عیسیٰ علیہ السلام

فلسطین کی سرزمین پر بنی اسرائیل میں عمران نامی ایک عابد اور زاہد شخص تھے۔ زہد و عبادت کی وجہ سے نماز کی امامت بھی ان کے سپرد تھی۔ ان کی بیوی حنہ بہت پارسا اور عابدہ تھیں اپنی نیکی کی وجہ سے دونوں بنی اسرائیل میں بہت زیادہ محبوب و مقبول تھے۔

عمران حضرت سلیمان علیہ السلام کی اولادمیں سے ہیں اور حنہ فاقو بن قبیل بھی حضرت داؤد علیہ السلام کی نسل میں سے ہیں۔ عمران کے کوئی اولاد نہیں تھی۔ دونوں میاں بیوی کو اولاد کی شدید خواہش تھی۔

ایک مرتبہ حنہ اپنے گھر کے صحن میں چہل قدمی کر رہی تھیں، دیکھا کہ ایک پرندہ اپنے بچے کو کھانا کھلا رہا ہے یہ دیکھ کر مامتا کے جذبات سے دل بھر آیا اور بارگاہ الٰہی میں ہاتھ اٹھا کر دعا کی:

’’اے میرے پیارے اللہ! مجھے اولاد عطا کر تا کہ وہ ہم دونوں کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بنے۔‘‘

دل سے نکلی ہوئی دعا قبول ہوئی۔ حنہ نے چند روز کے بعد محسوس کیا کہ وہ ماں بننے والی ہیں، انہیں دلی مسرت ہوئی اور جذبہ تشکر سے انہوں نے نذر مان لی کہ جو بچہ پیدا ہو گا اس کو مسجد اقصیٰ کی خدمت کے لئے وقف کر دونگی۔

حنہ کے شوہر عمران

ماں بننے سے پہلے حنہ کے شوہر عمران کا انتقال ہو گیا۔ بعد میں لڑکی پیدا ہوئی۔ حنہ کے لئے یہ لڑکی بھی لڑکے سے کم نہ تھی مگر یہ احساس دامن گیر ہو گیا کہ میں نے جو نذر مانی ہے وہ پوری نہیں ہو سکے گی۔اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ بتا کر خو ش کر دیا کہ 

’’ہم نے تیری لڑکی کو قبول کیا اور اس لڑکی کی وجہ سے تمہارا خاندان معزز اور مبارک قرار پایا۔‘‘

حنہ نے لڑکی کا نام ’’مریم‘‘ رکھا۔ سریانی زبان میں مریم کے معنی خادمہ کے ہیں۔

’’بے شک اللہ نے آدم اور نوح اور آل ابراہیم اور آل عمران کو (اپنے زمانے میں جہاں والوں پر بزرگی عطا فرمائی) اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے (وہ وقت یاد کرو) جب عمران کی بیوی نے کہا۔ خدایا میں نے نذر مان لی ہے کہ میرے پیٹ میں جو ہے وہ تیری راہ میں آزاد ہے، پس تو اس کو میری جانب سے قبول فرما بے شک تو سننے والا اور جاننے والا ہے۔ پھر جب اس نے جنا تو کہنے لگی میرے اللہ! لڑکی پیدا ہوئی ہے اور اللہ خوب جانتا ہے جو اس نے جنا ہے اور لڑکا اور لڑکی یکساں نہیں ہیں اور میں نے اس کا نام مریم رکھا اور میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان الرجیم کے فتنہ سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ پس مریم کو اس کے پروردگار نے بہت اچھی طرح قبول فرمایا اور اس کی نشوونما اچھے طریقہ پر کی اور زکریا کو اس کا نگراں بنا دیا۔‘‘

(سورہ آل عمران: ۳۳۔۳۷)

حضرت مریمؑ جب سن شعور کو پہنچیں تو یہ معاملہ درپیش ہوا کہ مقدس ہیکل کی یہ امانت کس کے سپرد کی جائے ہر ایک نے یہ خواہش ظاہر کی کہ اس مقدس امانت کا کفیل مجھے بنایا جائے۔ حضرت زکریاؑ ، حضرت مریمؑ کی خالہ (ابتسم) کے شوہر تھے اور مقدس ہیکل کے معزز کاہن اور نبی بھی تھے، اس لئے یہ سعید امانت ان کے سپرد کر دی گئی۔ حضرت زکریاؑ نے حضرت مریمؑ کے لئے ہیکل کے قریب ایک حجرہ نصب کر دیا تا کہ وہ دن میں عبادت الٰہی میں مصروف رہیں اور جب رات ہوتی تو وہ اپنے گھر ان کی خالہ  کے پاس لے جاتے تھے۔ مریمؑ عبادت میں مصروف رہتیں، ان کے سپرد ہیکل کی جو خدمت کی گئی تھی اسے بھی نہایت احسن طریقہ پر پورا کرتی تھیں۔اتنی عابدہ اور زاہدہ تھی کہ ان کا تقویٰ بنی اسرائیل  میں ضرب المثل بن گیا تھا۔

بے گمان رزق

حضرت زکریاؑ ، حضرت مریمؑ کی ضروری نگہداشت کے سلسلہ میں کبھی کبھی حجرے میں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ ان کو یہ بات عجیب نظر آتی تھی کہ مریم کے پاس اکثر بے موسم کے تازہ پھل موجود ہوتے تھے۔ ایک روز انہوں نے دریافت کیا:

’’مریم! تیرے پاس یہ بے موسم کے پھل کہاں سے آتے ہیں؟‘‘

بی بی مریمؑ نے کہا:

’’میرے اللہ کا فضل ہے وہ جس کو چاہتا ہے بے گمان رزق پہنچاتا ہے۔‘‘

حضرت زکریاؑ سمجھ گئے کہ اللہ کے ہاں مریمؑ کا خاص مرتبہ ہے، ساتھ ہی بے موسم تازہ پھلوں کے واقعہ نے دل میں یہ تمنا پیدا کر دی کہ جس اللہ نے اپنی قدرت کے صلہ سے بے موسم پھل پیدا کر دیئے ہیں وہ میرے بڑھاپے اور بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود مجھ کو بے موسم پھل ( بیٹا) ضرور عطا کرے گا۔ یہ سوچ کر انہوں نے خشوع و خضوع کے ساتھ بارگاہ ربانی میں دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی۔

’’اور اس(مریم) کی کفالت زکریا نے کی۔ جب اس کے پاس زکریا داخل ہوتے تو اس کے پاس کھانے کی چیزیں رکھی پاتے۔ زکریا نے کہا، اے مریم! یہ تیرے پاس کہاں سے آئے؟ مریم نے کہا یہ اللہ کے پاس سے آئے ہیں بلاشبہ اللہ جس کو چاہتا ہے بے گمان رزق دیتا ہے۔‘‘

(سورہ آل عمران۔ ۳۷)

برگزیدہ عورت

حضرت بی بی مریمؑ اپنے مقدس مشاغل کے ساتھ پاک زندگی بسر کرتی رہیں، حضرت زکریاؑ ان کے زہد و تقویٰ سے بے حد متاثر تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی عظمت اور جلالت کو درجہ اور زیادہ بلند کیا اور فرشتوں کے ذریعے ان کو بارگاہ الٰہی میں برگزیدہ ہونے کی بشارت سنائی گئی۔

اے پیغمبر وہ وقت یا د کیجئے’’جب فرشتوں نے کہا، اے مریم! بلاشبہ اللہ نے تجھ کو بزرگی دی اور پاک کیا اور دنیا کی عورتوں پر تجھ کو برگزیدہ کیا، اے مریم! 

اپنے پروردگار کے سامنے جھک جا اور سجدہ ریز ہو جا اور نماز قائم کرنے والوں کے ساتھ نماز ادا کر۔‘‘

(سورہ آل عمران: ۴۲۔۴۳)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان چند اولوالعزم، جلیل القدر اور مقدس رسولوں میں سے ہیں جن کی آمد کی بشارت متعدد انبیاء کرامؑ نے دی ہے۔تورات استشناء میں ہے۔

’’اور موسیٰ نے کہا کہ خداوند سینا سے آیا اور شعیر(ساعیر) سے ان پر طلوع ہوا اور فاران کے پہاڑوں سے جلوہ گر ہوا۔‘‘

(باب ۳۳۔ آیت ۲۰)

حضرت یسعیا نبیؑ کے صحیفہ میں ہے:

’’دیکھ میں اپنا پیغمبر تیرے آگے بھیجتا ہوں جو تیری راہ تیار کرے گا، بیابان میں پکارنے والے کی آواز آتی ہے کہ خداوند کی راہ تیار کرو، اس کے راستے سیدھے بناؤ۔

متی کی انجیل

متی کی انجیل میں ہے:

’’جب یسوع بیت الحم ہیرودیس میں پیدا ہوا تو دیکھا کہ کئی مجوسی یہ کہتے ہوئے آئے کہ یہودیوں کا بادشاہ جو پیدا ہوا ہے وہ کہاں ہے؟ یہ سن کر ہیرودیس کا بادشاہ اور اس کے ساتھ یروشلم کے سب لوگ گھبرائے اور اس نے قوم کے سب سردار، کاہنوں اور فقیہوں کو جمع کر کے ان سے پوچھا کہ مسیح کی پیدائش کہاں ہونی چاہئے؟ انہوں نے ان سے کہا کہ یہودیہ کے بیت الحم میں کیونکہ نبی (یسعیاہ علیہ السلام) کی معرفت یوں لکھا گیا ہے:

اے بیت الحم یہوداہ کے علاقہ! تو یہوداہ کے حاکموں میں ہرگز سب سے چھوٹا نہیں کیونکہ تجھ میں ایک سردار نکلے گا جو میری امت بنی اسرائیل کی گلہ بانی کرے گا۔‘‘

قرآن نے بھی حضرت زکریاؑ اور حضرت یحییٰ ؑ کے واقعہ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت کی تمہید قرار دیا ہے اور یحییٰ ؑ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مبشر اور صناد بتایا ہے:

’’پس فرشتوں نے اس (زکریا)کو اس وقت پکارا جب کہ وہ حجرے میں کھڑا ہوا نماز پڑھ رہا تھا۔ بیشک اللہ تعالیٰ تجھ کو یحییٰ (فرزند)کی بشارت دیتا ہے جو اللہ کے ایک حکم سے (عیسیٰؑ) کی تصدیق کرے گا۔‘‘

(سورہ آل عمران۔ ۳۹)


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔