Topics
عابدہ و زاہدہ اور عفت مآب مریمؑ اپنے حجرے میں عبادت میں مشغول رہتیں، ضرورت کے بغیر باہر نہیں نکلتی تھیں۔
ایک مرتبہ مسجد اقصیٰ کے مشرقی جانب لوگوں سے دور کسی ضرورت سے ایک گوشے میں تنہا بیٹھی تھیں کہ اچانک خدا کا فرشتہ انسانی شکل میں ظاہر ہوا اور حضرت مریمؑ نے ایک اجنبی شخص کو اس طرح بے حجاب سامنے دیکھا تو گھبرا گئیں اور فرمانے لگیں۔
’’اگر تجھ کو کچھ بھی خدا کا خوف ہے تو میں خدائے رحمان کا واسطہ دے کر تجھ سے پناہ چاہتی ہوں۔‘‘
فرشتے نے کہا:
’’مریم! خوف نہ کھا میں انسان نہیں بلکہ خدا کی طرف سے بھیجا گیا فرشتہ ہوں اور تجھ کو بیٹے کی بشارت دینے آیا ہوں۔‘‘
مریم نے یہ سنا تو ازراہ تعجب فرمانے لگیں:
’’میرے لڑکا کیسے ہو سکتا ہے؟ جب کہ مجھے آج تک کسی بھی شخص نے ہاتھ نہیں لگایا ہے، اس لئے کہ نہ تو میں نے نکاح کیا ہے اور نہ میں زانیہ ہوں۔‘‘
فرشتہ نے جواب دیا:
’’میں تو تیرے پروردگار کا قاصد ہوں، اس نے مجھ سے اسی طرح کہا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ میں اس لئے کروں گا کہ تجھ کو اور تیرے لڑکے کو کائنات کے لئے اپنی قدرت کے صلہ کے اعجاز کا ’’نشان‘‘ بنا دوں اور لڑکا میری جانب سے ’’رحمتہ‘‘ ثابت ہو گا اور میرا یہ فیصلہ اٹل ہے۔ مریم! اللہ تعالیٰ تجھ کو ایک ایسے لڑکے کی بشارت دیتا ہے جو اس کا کلمہ ہو گا اس کا لقب مسیح اور نام عیسیٰ ہو گا اور وہ دنیا و آخرت میں باوجاہت اور صاحب عظمت رہے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے مقربین میں سے ہو گا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے نشان کے طور پر بحالت شیر خوارگی لوگوں سے باتیں کرے گا اور سن کہولت (بڑھاپے کے ابتدائی دور) بھی پائے گا تا کہ کائنات کی رشد و ہدایت کی خدمت کی تکمیل کرے اور یہ سب کچھ اس لئے ضرور ہو کر رہے گا کہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ جب وہ کسی شئے کو وجود میں لانا چاہتا ہے تو اس کا محض یہ ارادہ اور حکم کہ ’’ہو جا‘‘ اس شئے کو ظہور میں لے آتا ہے۔ لہٰذا یہ یونہی ہو کر رہے گا اور اللہ تعالیٰ اس کو اپنی کتاب عطا کر ے گا، اس کو حکمت سکھائے گا اور اس کو بنی اسرائیل کی رشد و ہدایت کے لئے نبی اور پیغمبر بنائے گا۔‘‘
قرآن حکیم نے ان واقعات کا معجزانہ اسلوب بیان کیا ہے:
’’(وہ وقت قابل ذکر ہے) جب فرشتوں نے مریم سے کہا۔ اے مریم! اللہ تعالیٰ تجھ کو اپنے کلمہ کی بشارت دیتا ہے اس کا پورا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہو گا، وہ دنیا اور آخرت میں صاحب وجاہت اور ہمارے مقربین میں سے ہو گا اور وہ (ماں کی) گود میں اور کہولت کے زمانے میں لوگوں سے کلام کرے گا اور وہ نیکو کاروں میں سے ہو گا۔ مریم نے کہا: میرے لڑکا کیسے ہو سکتا ہے جب کہ مجھے کسی مرد نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ فرشتہ نے کہا، اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے اسی طرح پیدا کر دیتا ہے وہ جب کسی شئے کے لئے حکم کرتا ہے تو بس کہہ دیتا ہے ’’ہو جا‘‘ اور وہ ہو جاتی ہے اور اللہ اس کو کتاب و حکمت اور تورات و انجیل کا علم عطا کرے گا اور وہ بنی اسرائیل کی جانب اللہ کا رسول ہو گا۔‘‘
(سورہ آل عمران: ۴۲۔۴۹)
’’اور اے پیغمبر! کتاب میں مریم کا واقعہ ذکر کرو اس وقت کا ذکر جب وہ ایک جگہ پورب کی طرف تھی اپنے آدمیوں سے الگ ہوئی پھر اس نے لوگوں کی طرف سے پردہ کر لیا پس ہم نے اس کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا اور وہ ایک بھلے چنگے آدمی کے روپ میں نمایاں ہو گیا، مریم اسے دیکھ کر گھبرا گئی اور بولی اگر تو نیک آدمی ہے تو میں خدائے رحمان کے نام پر تجھ سے پناہ مانگتی ہوں۔ فرشتے نے کہا میں تیرے پروردگار کا فرستادہ ہوں اور اس لئے نمودار ہوا ہوں کہ تجھے ایک پاک فرزند دے دوں، مریم بولی ، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میرا لڑکا ہو حالانکہ کسی مرد نے مجھے چھوا نہیں اور نہ میں بدچلن ہوں۔ فرشتہ نے کہا، ہو گا ایسا ہی تیرے پروردگار نے فرمایا ہے کہ یہ میرے لئے کچھ مشکل نہیں، وہ کہتا ہے کہ یہ اس لئے ہو گا کہ اس کو لوگوں کے لئے ایک نشان بنا دوں اور میری رحمت کا اس میں ظہور ہو اور یہ ایسی بات ہے جس کا ہونا طے ہو چکا ہے۔‘‘
(سورۃ مریم: ۱۶۔۲۱)
بشری تقاضے کے تحت مریمؑ پر اضطرابی کیفیت طاری ہو گئی اس کیفیت نے اس وقت شدت اختیار کر لی جب انہوں نے دیکھا کہ مدت حمل ختم ہو کر ولادت کا وقت قریب آ گیا۔ انہوں نے سوچا کہ لوگوں کو حقیقت حال کا علم نہیں ہے، ولادت کا مرحلہ یہاں پیش آیا تو بہت بدنامی ہو گی، اس لئے مناسب یہ ہے کہ کہیں دور چلی جاؤں۔
یہ سوچ کر وہ یروشلم (بیت المقدس)سے تقریباً نو میل کوہ سراہ (ساعیر) کے ایک ٹیلے پر چلی گئیں۔ جو اب بیت الحم کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں پہنچ کر چند روز بعد درد زہ شروع ہوا تو تکلیف و اضطراب کی حالت میں کھجور کے ایک درخت کے تنے کے سہارے بیٹھ گئیں اور بعد میں پیش آنے والے حالات کا اندازہ کر کے انتہائی دکھ سے کہنے لگیں:
’’کاش کہ میں اس سے پہلے مر چکی ہوتی اور لوگ میری ہستی فراموش کر چکے ہوتے۔‘‘
مریم غمگین نہ ہو
تب نخلستان کے نشیب سے خدا کے فرشتے نے پھر پکارا:
’’مریم! غمگین نہ ہو تیرے پروردگار نے تیرے نیچے ایک چشمہ رواں کر دیا ہے اور تو ذرا اس درخت کے تنے کو ہلا، تیرے اوپر تازہ کھجوریں ٹپک پڑیں گی پس تو کھا اور پی اور اپنی آنکھیں بچے کے نظارے سے ٹھنڈی کر پھر اگر کوئی آدمی نظر آئے تو اس سے کہہ دے کہ میں نے رحمان کیلئے روزے کی نذر مانی ہے اس لئے آج میں کسی سے نہ بولوں گی۔‘‘
(سورہ مریم۔ ۲۶،۳۶)
تنہائی اور تکلیف میں پیش آنے والے حالات سے حضرت مریمؑ پر جو خوف طاری ہو گیا تھا فرشتے کی تسلی آمیز پکار سے راحت میں بدل گیا، تاہم یہ خیال بے چین کئے ہوئے تھا کہ اگرچہ خاندان والے اور قوم میری عصمت و پاکدامنی پر یقین رکھتے ہیں پھر بھی اس حیرت کو کس طرح مٹایا جا سکے گا کہ باپ کے بغیر کس طرح یہ بچہ پیدا ہو سکتا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے فرشتے کے ذریعے مریم کے پاس پھر یہ پیغام بھیجا کہ:
’’جب تو اپنی قوم میں پہنچے اور وہ تجھ سے اس معاملہ کے متعلق سوالات کریں تو جواب نہ دینا بلکہ اشارے سے بتا دینا کہ میں روزے سے ہوں، اس لئے آج کسی سے بات نہیں کر سکتی جو کچھ دریافت کرنا ہے اس بچے سے پوچھ لو۔ تیرا پروردگار قدرت کاملہ کا نشان ظاہر کر کے ان کی حیرت کو دور اور قلوب کو مطمئن کر دے گا۔‘‘
حضرت مریمؑ وحی الٰہی کے ان پیغامات پر مطمئن ہو کر بچہ کو گود میں لے کر بیت المقدس کی طرف روانہ ہوئیں۔ جب شہر پہنچیں تو لوگوں نے انہیں اس حالت میں دیکھ کر چاروں طرف سے گھیر لیا اور کہنے لگے:
’’مریم یہ کیا تو نے بھاری تہمت کا کام کر لیا۔ اے ہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدچلن تھی پھر تو یہ کیا کر بیٹھی ہے؟‘‘
مریم نے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے لڑکے کی طرف اشارہ کیا:
’’جو کچھ پوچھنا ہے اس سے معلوم کر لو میں تو آج روزہ سے ہوں۔‘‘
لوگوں نے نہایت تعجب کے ساتھ کہا:
’’ہم کس طرح اس شیر خوار بچے سے پوچھ سکتے ہیں جو ابھی ماں کی گود میں ہے؟‘‘
مگر بچہ فوراً بول اٹھا:
’’میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اللہ نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے اور اس نے مجھے مبارک بنایا خواہ میں کسی حال اور جگہ پر ہوں اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا جب تک زندہ ہوں میرا یہی شعار ہو گا اور میرے پروردگار نے مجھ کو میری ماں کا خدمت گزار بنایا، خود سر اور نافرمان نہیں بنایا اور پھر اس کی جانب سے مجھ کو سلامتی کا پیغام ہے جس دن کہ میں پیدا ہوا اور جس دن میں مرونگا اور جس دن کہ پھر زندہ اٹھایا جاؤں گا۔‘‘
قرآن پاک میں ان تفصیلات کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے:
’’اور اس عورت (مریم ؑ)کا معاملہ جس نے اپنی پاکدامنی کو قائم رکھا پھر ہم نے اس میں اپنی روح کو پھونک دیا اور اس کو اس کے لڑکے کو جہاں والوں کے لئے نشان ٹھہرایا۔‘‘
(سورۃ انبیاء: ۹۱)
’’اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی عصمت کو برقرار رکھا پس ہم نے اس میں اپنی روح کو پھونک دیا۔‘‘
(سورۃ مریم۔ ۱۲)
’’پھر اس ہونے والے فرزند کا حمل ٹھہر گیا وہ لوگوں سے الگ ہو کر دور چلی گئی، پھر اسے درد زہ کھجور کے ایک درخت کے نیچے لے گیا، اس نے کہا! کاش میں اس سے پہلے مر چکی ہوتی۔ میری ہستی کو لوگ یک دم بھول گئے ہوتے اس وقت اسے نیچے سے فرشتہ پکارا، غمگین نہ ہو تیرے پروردگار نے تیرے تلے نہر جاری کر دی ہے اور کھجور کے درخت کا تنا پکڑ کے اپنی طرف ہلا تازہ اور پکے ہوئے پھلوں کے خوشے تجھ پر گرنے لگیں گے۔ کھا پی آنکھیں ٹھنڈی کر پھر اگر کوئی آدمی نظر آئے کہہ دے میں نے خدائے رحمان کے حضور روزے کی منت مانگ رکھی ہے، میں آج کسی آدمی سے بات چیت نہیں کر سکتی، پھر ایسا ہوا کہ وہ لڑکے کو ساتھ لے کر اپنی قوم کے پاس آئی، لڑکا اس کی گود میں تھا لوگ بول اٹھے، مریم تو نے عجیب ہی بات کر دکھائی اور بڑی تہمت کا کام کر گزری۔ اے ہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ برا آدمی تھا نہ تیری ماں بدچلن تھی، اس پر مریم نے لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔ لوگوں نے کہا۔بھلا اس سے ہم کیا بات کریں جو ابھی گود میں بیٹھنے والا شیر خوار بچہ ہے۔ مگر لڑکا بول اٹھا، میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایا اور اس نے مجھے بابرکت بنایا، خواہ میں کسی حال اور جگہ پر ہوں اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا جب تک زندہ ہوں میرا یہی شعار ہو گا اور میرے پروردگار نے مجھ کو میری ماں کا فرمانبردار بنایا، خود سر اور نافرمان نہیں بنایا اور پھر اس کی جانب سے مجھ کو سلامتی کا پیغام ہے جس دن کہ میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں گا اور جس دن کہ پھر زندہ اٹھایا جاؤں گا۔‘‘
(سورہ مریم۔ ۲۲،۳۳)
بنی اسرائیل نے جب ایک شیر خوار بچے سے یہ حکیمانہ کلام سنا تو وہ حیرت میں رہ گئی۔ انہیں یقین آ گیا کہ مریم ہر قسم کی برائی سے پاک اور بچے کی پیدائش یقیناً منجانب اللہ ایک ’’نشان‘‘ ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزانہ ولادت کے چرچے ہونے لگے جو لوگ راست باز تھے انہوں نے اس کے وجود کو بابرکت سمجھا، شری اور فسادی لوگوں نے اس کی ہستی کو فال بد سمجھا اور بغض و حسد کے شعلوں نے اندر ہی اندر ان کے فطری وصف کو کھانا شروع کر دیا۔
اس ماحول کے اندراللہ تعالیٰ اپنی نگرانی میں اس مقدس بچے کی تربیت اور حفاظت کرتا رہا تا کہ اس کے ذریعے بنی اسرائیل کے مردہ قلوب کو حیات تازہ بخشے اور ان کی روحانیت کے شجر خشک کو ایک بار پھر بار آور اور باثمر بنائے۔
’’اور ہم نے عیسیٰ بن مریم اور اس کی ماں(مریم) کو نشان بنا دیا اور ان دونوں کا ایک بلند مقام پر ٹھکانہ بنایا جو سکونت کے قابل اور چشمے والا ہے۔‘‘
(سورۃ مومنون۔ ۵۰)
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔