Topics

مذاہب عالم:

تمام مذاہب اور دنیا میں رائج علوم ہمیں دعوت دیتے ہیں کہ ہم اصل انسان کو جانیں اور پہچان لیں۔ ہم اس حقیقت کا ادراک کر لیں کہ انسان کہاں سے آیا ہے اور کہاں چلا جاتا ہے۔اس بات سے واقف ہونے کے لئے پیغمبروں نے قواعد و ضوابط مرتب کئے ہیں۔ آسمانی کتابوں اور آخری کتاب قرآن نے انسان کی اصل سے متعارف کرانے کے لئے ضابطے(Formulas) بیان کئے ہیں۔ تاکہ خود آگاہی حاصل کرکے مٹی کا مادھو آدمی اپنی اصلیت سے واقف ہو جائے۔

بڑے دکھ کی بات ہے کہ تاریخ ہمیں اضطراب، بے چینی، بدحالی، خوف و غم اور پریشانی کے علاوہ کچھ نہیں دیتی۔ انسان ہمیشہ سے مضطرب، بدحال، غمگین، خوفزدہ اور پریشان رہا ہے۔ خوف اور عدم تحفظ کسی زمانے میں بہت زیادہ ہو جاتا ہے اور کبھی کم لیکن قائم رہتا ضرور ہے۔

قانون:

جیسے جیسے انسان کی دلچسپیاں مادی وجود میں زیادہ ہوتی ہیں اسی مناسبت سے وہ روشنیوں سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ روشنیوں سے دوری کا نام ہی بے چینی اور درماندگی ہے۔ آج کے دور میں ذہنی کشمکش اور اعصابی کشاکش عروج پر ہے۔ اس سے محفوظ رہنے اور پرسکون زندگی گزارنے کا طریقہ اگر کوئی ہے تو یہ ہے کہ انسان اپنی اصل سے تعارف حاصل کرے۔ جب ہم اپنی اصل سے واقف ہو جائیں گے تو لہروں اور روشنیوں کی پرمسرت ٹھنڈک ہمارا احاطہ کر لے گی۔

ہمیں اس بات کا بھی ادراک ہونا چاہئے کہ انسان اور دوسری مخلوقات میں کیا فرق ہے؟ اور اگر انسان تمام مخلوقات سے افضل ہے تو کیوں افضل ہے؟

’’ہم نے پیش کی اپنی امانت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر۔ انہوں نے اس امانت کو اٹھانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر ہم نے اس بار امانت کو اٹھا لیا تو ہم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بے شک یہ ظالم اور جاہل ہے۔‘‘

(سورۃ احزاب : ۷۲)

اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے پتہ چلتا ہے کہ کائنات کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کے سامنے اپنی امانت پیش کی۔ سب اس بات سے واقف تھے کہ وہ اس عظیم بار امانت کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ لیکن انسان اس امانت کا امین بننے پر راضی ہو گیا اور اس نے خصوصی نعمت کو قبول کر لیا۔

(غور طلب یہ ہے کہ انسان، اللہ تعالیٰ کی امانت کا امین ہے لیکن اللہ تعالیٰ اسے ظالم اور جاہل قرار دے رہے ہیں۔)

تخلیقی فارمولوں کے تحت اللہ کی ہر مخلوق باشعور اور باحواس ہے اور اپنی خداداد صلاحیتوں سے قائم اور متحرک ہے۔ آسمان، زمین اور پہاڑوں کی گفتگو ہمیں متوجہ کرتی ہے کہ انسان کی طرح آسمان، زمین، زمین کے تمام ذرات، زمین کے اوپر تمام تخلیقات اور پہاڑ ’’شعور‘‘ رکھتے ہیں۔ جس طرح آدمی کے اندر عقل کام کرتی ہے اسی طرح پہاڑ بھی عقل رکھتے ہیں کیونکہ کسی بات کا اقرار یا انکار بجائے خود فہم و ادراک اور شعور کی دلیل ہے۔

تفکر ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ ایسی زندگی جس میں بصیرت شامل نہ ہو ظلم و جہالت ہے۔ پہاڑوں، آسمانوں اور زمین نے تفکر کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ وہ امانت کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس طرح وہ ظلم و جہالت کے دائرے سے باہر ہو گئے۔

انسان کو اللہ تعالیٰ کی جو امانت حاصل ہے۔ اس سے صرف نظر، اگر انسانی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ انسان سماوات، ارض اور پہاڑوں کی نسبت کوتاہ عقل ہے۔ انسان اس لئے عقل مند ہے کہ وہ اللہ کی امانت کا امین ہے۔ زمین پر ہر تخلیق اور آسمانوں میں اشیاء اللہ کی نشانیاں ہیں۔

زمین، دھوپ اور پانی الگ الگ شئے ہیں۔ لیکن جب زمین تخلیق کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو یہ اشیاء رنگ بکھیرتی ہیں کہ عقل و دانائی گنگ ہو جاتی ہے۔ ایک ہی پانی زمین کی کوکھ میں جذب ہونے کے بعد اتنی تخلیقات میں جلوہ گر ہوتا ہے کہ ان کا کوئی شمار نہیں۔ لگتا ہے کہ زمین کے بطن میں بے شمار سانچے نصب ہیں جس سانچے میں پانی ٹھہر جاتا ہے وہاں نیا روپ اختیار کر لیتا ہے۔ کبھی کیلا بن جاتا ہے، کبھی سیب بن جاتا ہے، انگور بن جاتا ہے اور کبھی پھول بن جاتا ہے۔ یہی پانی مخصوص پروسیس سے گزر کر تتلی بن جاتا ہے اور خوبصورت اور پرکشش چہرہ بن جاتا ہے۔ ایک چھوٹا سا بیج جب زمین کے رحم پر ڈال دیا جاتا ہے تو زمین اس بیج کو پرورش کر کے تناور درخت بنا دیتی ہے۔

اس تجزیہ سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ زمین باصلاحیت ہے۔ اشرف المخلوقات انسان اسی زمین کی ایک ذیلی تخلیق ہے۔ انصاف کا تقاضہ ہے کہ ہم تلاش کریں کہ انسان کا شرف کیا ہے؟

عام زندگی میں جو صلاحیت مظر بنتی ہے اور جو اعمال و حرکات سرزد ہوتے ہیں صرف ان سے انسان کا شرف ثابت نہیں ہوتا۔ 

پیدائش، شعور، بھوک، پیاس اور خواہشات چاہے جسمانی ہوں یا جنسی ہر مخلوق میں موجود ہیں لیکن ایک بات میں انسان دیگر تمام مخلوقات سے ممتاز ہے وہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا ’’امین‘‘ ہے۔ انسان اگر اس امانت سے واقف ہے تو وہ اشرف المخلوقات ہے۔ اگر اس امانت سے واقف نہیں ہے تو وہ دوسری مخلوقات کے برابر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خصوصی نعمت حاصل ہونے کے باوجود اس نعمت سے بے خبر رہنا ظلم و جہالت ہے۔

اس خصوصی انعام سے مستفیض ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں اپنی ذات کا عرفان حاصل ہو۔ تصوف میں اس علم کا نام خود آگاہی ہے۔ خود آگاہی کے بعد انسان کے اوپر ان علوم کے دروازے کھل جاتے ہیں جن میں سے گزر کر اللہ کے ساتھ بندے کا رشتہ مستحکم ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پیش کردہ امانت سے واقف ہونا ہی انسان کو اشرف المخلوقات کے مرتبے پر فائز کرتا ہے اور اگر وہ اس امانت سے واقف نہیں ہے تو وہ ظالم و جاہل ہے۔


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔