Topics

حضرت زکریا علیہ السلام

حضرت زکریا علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم کے مربی اور سرپرست ہیں، بیت المقدس کی دیکھ بھال اور وہاں ہونے والی تقریبات کے انتظام و انصرام کے لئے بنی اسرائیل کے قبیلوں میں سے متقی اور راست باز شخصیات کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ حضرت زکریا علیہ السلام زہد و تقویٰ کی بنا پر معزز اور جلیل القدر بزرگ شخص تھے۔ حضرت زکریا علیہ السلام اللہ کے فرستادہ نبی تھے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس یہ سب نیکو کاروں میں سے ہیں۔‘‘

(سورۃ انعام۔ ۸)

کارپینٹر

حضرت زکریا علیہ السلام اپنی معاش کے لئے بڑھئی کا کام کرتے تھے۔ والدہ مریم (حنہ) کے یہاں جب بیٹی پیدا ہوئی تو انہوں نے اپنی منت کے مطابق مریمؑ کو ہیکل کی نذر کر دیا۔ اس مقدس لڑکی کی کفالت لینے کے لئے قرعہ اندازی کی گئی تو حضرت زکریا علیہ السلام کا نام نکلا اور حضرت زکریا علیہ السلام مقدس لڑکی مریمؑ کے کفیل بن گئے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کی بیوی الیشع اور حضرت مریمؑ کی والدہ حنہ دونوں حقیقی بہنیں تھیں اس رشتے سے حضرت زکریا علیہ السلام حضرت مریمؑ کے خالو تھے۔

حضرت زکریا علیہ السلام کی عمر کم و بیش ایک سو بیس (۱۲۰) سال (*حضرت زکریا علیہ السلام کی عمر میں اختلاف بیان کیا جاتا ہے ستر، نوے اور ایک سو بیس سال عمر بتائی گئی ہے جبکہ ان کی زوجہ محترمہ کی عمر اٹھانوے (۹۸) سال بتائی جاتی ہے) ہو چکی تھی، لاولد تھے کیونک ان کی زوجہ بانجھ تھیں۔ جب حضرت زکریا علیہ السلام نے بی بی مریمؑ کے حجرے میں بے موسم پھل دیکھے اور ان کو یہ معلوم ہوا کہ مریمؑ پر خدا کا یہ فضل و انعام ہے تو ان کے دل میں شوق ہوا کہ مجھے بھی اللہ تعالیٰ بیٹا عطا کرے۔

حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی:

’’اے اللہ! مجھے پاک باطن اولاد عطا فرما تو حاجت مندوں کی دعا ضرور سنتا ہے۔‘‘

ہر باپ کی طرح ان کی بھی خواہش تھی کہ میرے بعد کوئی میری وراثت کا حق پورا کرے اور بنی اسرائیل کی رشد و ہدایت کے لئے تبلیغ کرے، آپ کی دعا قبول ہوئی، ایک روز آپ ہیکل میں عبادت کر رہے تھے کہ ایک فرشتہ ظاہر ہوا اور بشارت دی:

’’تمہارے بیٹے پیدا ہو گا اور تم اس کا نام یحییٰ رکھنا۔‘‘

یہ سن کر حضرت زکریاؑ بہت خوش ہوئے اور تعجب کے ساتھ فرشتے سے پوچھا:

’’یہ بشارت کس طرح پوری ہو گی؟‘‘

فرشتے نے جواب دیا:

’’میں یہی بتا سکتا ہوں کہ اللہ آپ کو اولاد نرینہ عطا کرے گا حالات کچھ بھی پیش آئیں اللہ کے لئے ہر کام آسان ہے، وہ قادر مطلق ہے۔‘‘

حضرت زکریا علیہ السلام نے دربار الٰہی میں عرض کیا:

’’اے اللہ! ایسا کوئی نشان عطا کر جس سے معلوم ہو کہ بشارت پوری ہو گئی ہے۔‘‘

تین روز کا روزہ

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’نشانی یہ ہے جب تم تین روز تک بات نہ کر سکو اور صرف اشاروں سے ہی اپنا مطلب ادا کر سکو تو سمجھ لینا کہ بشارت پوری ہو گئی ہے لیکن تم ان دنوں میں اللہ کی تسبیح پڑھتے رہنا۔‘‘

چنانچہ جب وہ وقت آ پہنچا تو زکریا علیہ السلام خدا کی یاد میں اور زیادہ مشغول ہو گئے۔ حضرت زکریاؑ نے اپنی امت کو بھی اشاروں سے یہ حکم دیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کریں یہ بشارت بنی اسرائیل کے لئے خوشی کا باعث تھی کیونکہ علم و حکمت اور نبوت کے امین حضرت زکریا علیہ السلام کے جانشین اور وارث کا دنیا میں ظہور ہونے والا تھا۔

’’کاف، ہا، یا، عین، صاد (اے پیغمبر) تیرے پروردگار نے اپنے بندے زکریا پر جو مہربانی کی تھی یہ اس کا بیان ہے جب ایسا ہوا تھا کہ زکریا نے چپکے چپکے اپنے پروردگار کو پکارا اس نے عرض کیا پروردگار! میرا جسم کمزور پڑ گیا ہے، میرے سر کے بال بڑھاپے سے بالکل سفید ہو گئے، خدایا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے تیری جناب میں دعا کی ہو اور محروم رہا ہوں، مجھے اپنے مرنے کے بعد اپنے بھائی بندوں سے اندیشہ ہے اور میری بیوی بانجھ ہے، پس تو اپنے خاص فضل سے مجھے ایک وارث بخش دے ایسا وارث جو میرا بھی وارث ہو اور خاندان یعقوب کا بھی اور پروردگار! اسے ایسا کر دیجو کہ پسندیدہ ہو (اس پر حکم ہوا) اے زکریا! ہم تجھے ایک لڑکے کی پیدائش کی خوشخبری دیتے ہیں اس کا نام یحییٰ رکھا جائے اس سے پہلے ہم نے یہ نام کسی کا نہیں ٹھہرایا ہے۔ (زکریا نے متعجب ہو کر کہا) پروردگار! میرے ہاں لڑکا کہاں سے ہو گا میری بیوی بانجھ ہو چکی ہے اور میرا بڑھاپا دور تک پہنچ چکا اللہ نے فرمایا ایسا ہی ہو گا تیرا پروردگار فرماتا ہے کہ ایسا کرنا میرے لئے مشکل نہیں میں نے اس سے پہلے خود تجھے پیدا کیا حالانکہ تیری ہستی کا نام و نشان نہیں تھا۔ اس پر زکریا نے عرض کیا: اے اللہ! آپ ایک نشانی ٹھہرا دیں۔ فرمایا: تیری نشانی یہ ہے کہ صحیح و تندرست ہونے کے باوجود تین دن، رات لوگوں سے بات نہ کرے گا۔ پھر وہ حجرے سے نکلا اور لوگوں میں آیا اور اس نے ان سے اشارے سے کہا ’’صبح شام خدا کی پاکی و جلال کی صدائیں بلند کرتے رہو۔‘‘ 

(سورۃ مریم۔ ۲۱۱)

’’اور اسی طرح زکریا کا جب اس نے اپنے پروردگار کو پکارا تھا۔ خدایا! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو ہی بہتر وارث ہے۔ تو دیکھ ہم نے اس کی پکار سن لی۔ اسے یحییٰ عطا فرمایا اور اس کی بیوی کو اس کیلئے تندرست کر دیا، یہ تمام لوگ نیکی کی راہوں میں سرگرم تھے امید لگائے ہوئے اور ڈرے ہوئے دعائیں مانگتے تھے اور ہمارے آگے عجز و نیاز سے جھکے ہوئے تھے۔‘‘

(سورۃ الانبیاء: ۸۹۔۹۰)


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔