Topics
۱۔ حضرت سلیمان علیہ السلام جو انسان تھے انسانوں، جنات، پرندوں، چرندوں اور درندوں پر حکومت کرتے تھے۔
۲۔ ان میں کوئی سرکشی کی ہمت نہیں کر سکتا تھا اگر وہ سرکشی کرتا تو اسے سزا دی جاتی تھی جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہد ہد کے لئے کہا۔
۳۔ باوجود اتنے بڑے لشکر کے جس میں جنات، انسان، پرندے وغیرہ شامل تھے، اللہ انہیں اس تمام لشکر کی شکم سیری کے لئے رزق فراہم کرتا تھا۔
۴۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے قصے میں اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ پرندے شعور رکھتے ہیں لہٰذا ہد ہد پرندہ کی عقل و شعور انسان کو فہم و فراست فراہم کرتی ہے کہ پیغامات کی ترسیل کا کام انسانوں کی طرح حیوانات سے بھی لیا جا سکتا ہے۔
اس قصے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر میں ایک ایسا جن بھی تھا جو ایک یا دو ساعت میں ملکہ سبا کا تخت یمن سے بیت المقدس لا سکتا تھا، یمن اور بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً ڈیڑھ ہزار میل ہے۔
اس قصے سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ علم کے سلسلے میں انسان کی رسائی جنات سے بہت زیادہ ہے کیونکہ وہ ’’کتاب کا علم‘‘ رکھتا ہے ایسا ہی انسان ملکہ کا تخت ایک آن میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں لے آیا۔ اللہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ آسمانی کتابوں میں وہ علم موجود ہے جس سے نوع انسانی ہر طرح کا استفادہ کر سکتی ہے۔ اس میں نبی ہونے کی کوئی شرط نہیں بلکہ ہر بندے کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ کتاب کا علم (علم الاسماء) سیکھ کر بندہ ایسی مسند پر براجمان ہو جاتا ہے جہاں اسے کائنات میں تصرف کرنے کی صلاحیت ودیعت کر دی جاتی ہے اور زمان و مکان اس کے لئے مسخر ہو جاتے ہیں۔ وہ بندہ ٹائم کی نفی کر سکتا ہے اور اسپیس اس کے حکم سے سمٹ جاتی ہے۔
تفكر
اس صلاحیت کو کوئی بندہ ٹھکرا دے اور سمجھے کہ میری کیا حقیقت ہے کہ میں اس علم کو سمجھ سکوں تو یہ غلط ہے اس لئے کہ اللہ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے قصے میں بندے کا تذکرہ کر کے یہ صلاحیت عام کر دی ہے، بشرطیکہ وہ تفکر سے کام لے اور اسے تلاش کرے۔
ٹائم لیس کا قانون بیان کر کے پیغمبروں کی فضیلت کو کم کرنا ہرگز ہمارا منشاء نہیں ہے، پیغمبر اللہ تعالیٰ کے منتخب اور نوع انسانی کا جوہر ہوتے ہیں اور نوع انسانی کے تمام علوم مخزن و منبع بھی اللہ کے فرستادہ پیغمبر ہیں۔
بتانا یہ مقصود ہے کہ نوع انسانی کا ہر فرد پیغمبروں کے علم سے استفادہ کر کے ماورائی دنیا میں تصرف کر سکتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا تذکرہ کر کے ایجادات کا بنیادی قانون بیان کیا ہے۔
’’ہم نے سلیمان و داؤد کو ایک علم دیا جو اللہ کی طرف سے انسپائر ہوا ہے۔‘‘
انسپائر ہونا خواہ وہ سن کر ہو یا منظر دیکھ کر ہو بہرصورت اللہ کی طرف سے ہوتا ہے چنانچہ اللہ کے پیغمبروں پر وحی کے ذریعے علم کا نزول ہوتا تھا اس لئے اللہ کی طرف سے ذہن میں کوئی خیال آتا ہے تو وہ اللہ ہی کا علم ہوتا ہے۔ مختلف سائنسی ایجادات مثلاً ہوائی جہاز، ٹیلیفون، وائرلیس، ٹی وی، کمپیوٹر، مہلک ہتھیار، لیزر شعاعوں کی دریافت بھی اسی وقت ممکن ہوئی جب لوگوں کو اللہ کی طرف سے نئی نئی ایجادات و اختراعات کا علم انپسائر کیا گیا اس لئے کہ علم کے بغیر کسی شئے کا وجود ممکن نہیں۔ اللہ کا قانون یہ ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں کے ساتھ تن من دھن سے کسی چیز کی تلاش میں لگ جائے اور اسے زندگی کا مقصد قرار دے دے تو وہ چیز اسے حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ اللہ کی سنت ہے پہلے بھی جاری تھی، اب بھی جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گی۔
٭٭٭٭٭
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔