Topics

حکمت ۔ شعیب

اس واقعہ میں تفکر ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ دین کا بنیادی عنصر خیر خواہی ہے۔ اگر ہم کسی کے لئے اچھائی نہیں کر سکتے تو اس کے لئے برائی بھی نہ کریں۔ 

اللہ ہمارا سب سے بڑا بزرگ، سب سے بڑا دوست اور سب سے بڑا ہمدرد ہے۔ اللہ نے ہماری زندگی سنوارنے کے لئے پہلے قوانین بنائے اور پھر ان قوانین کو اپنے پیغمبروں کے ذریعے ہم تک پہنچایا۔ یہ سارے قانون ایسے ہیں کہ اس میں اللہ کی کوئی ضرورت شامل نہیں، کوئی حاجت، کوئی منفعت نہیں ہے۔ سارے قوانین ہماری بھلائی کے لئے ہیں۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں نے نوع انسان کو برائی اور بھلائی کے تصور سے آگاہ کیا۔ سب پیغمبروں نے اچھائی اور برائی میں تمیز اور ماوراء ہستی اللہ سے واقف کرانے کے اصول و ضوابط اور احکامات سنائے۔ اللہ پرستی کی تعلیم دی۔

دولت کے پجاری

جو قوم اللہ کی نافرمانی کرتی ہے اور اللہ کی پرستش کے بجائے دولت کی پرستش میں مبتلا ہو جاتی ہے اللہ ایسی قوم کو ذلیل و خوار کر دیتا ہے۔ یہ کوئی کہانی نہیں ہے بلکہ روئے زمین پر اس کی شہادتیں موجود ہیں۔ بڑی بڑی سلطنتوں کے بادشاہ محلات کے مکین اور ان کے عالیشان محلات آج کھنڈرات کی شکل میں زمین پر جگہ جگہ موجود ہیں۔ شہنشاہ ایران جس کے خاندان نے ڈھائی ہزار برس حکومت کی ہے بے یار و مددگار مر گیا۔ اور اسے اپنے ملک میں قبر کے لئے دو گز زمین بھی نصیب نہیں ہوئی۔

’’کیا یہ لوگ زمین میں گھوم پھر کر نہیں دیکھتے کہ پہلی اقوام کا انجام کیا ہوا۔ وہ لوگ قوت اور تہذیب و تمدن میں ان سے برتر تھے لیکن اللہ نے انہیں ان کے گناہوں کی سزا میں پکڑ لیا اور انہیں کوئی نہیں بچا سکا۔‘‘

سورۃ المومن۔ ۲۱)

جب تک اللہ کے بتائے ہوئے نظام میں خلل واقع نہ ہو، اللہ کا قانون لغزشوں کو نظر انداز کرتا رہتا ہے لیکن جب افراد کے غلط طرز عمل سے اللہ کے تخلیقی سسٹم میں اضطراب پیدا ہو جاتا ہے تو قاہرانہ نظام متحرک ہو جاتا ہے اور قوم درد ناک عذاب میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ اللہ کا قانون ایسے افراد سے اقتدار چھین لیتا ہے اور قوم غلام بن جاتی ہے اس لئے کہ قوم نے خود دولت کا غلام بن کر اپنے لئے عارضی اور مٹ جانے والی چیز کی غلامی پسند کر لی تھی۔ مال و دولت انسان کی بڑی کمزوری ہے۔

’’بے شک انسان مال و دولت کی محبت میں بڑا شدید ہے۔‘‘

(سورۃ العٰدیٰت۔ ۸)

انسان سمجھتا ہے کہ زر و جواہرات اس کی ضروریات کی کفالت کرتے ہیں۔ وہ دولت کے انبار جمع کرتا ہے۔ ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ قدرت نے اسے توانائیوں کا جو بیش بہا خزانہ عطا کیا ہے وہ اسے ہوسِ زر میں ختم کر دیتا ہے۔

انسان کہتا ہے کہ جو کچھ میں کماتا ہوں وہ میرے دست و بازو کی قوت پر منحصر ہے۔ یہی وہ طرز فکر ہے جو آدمی کے اندر سرکشی اور بغاوت کی تخم ریزی کرتی ہے۔ جب یہ سرکشی تناور درخت بن جاتی ہے تو اللہ سے اس کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے اور آدمی ذریت قارون کا فرد بن جاتا ہے۔

دنیا کی اہمیت کو کم کرنے کے لئے قرآن پاک میں جگہ جگہ اللہ کی مخلوق کے لئے مال و دولت کو کھلا رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ پاک اور حلال کمائی میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہے۔

’’تم نیکی اور اچھائی کو نہیں پا سکتے جب تک وہ چیز اللہ کی راہ میں نہ دے دو جو تمہیں عزیز ہے۔‘‘

’’اے نبیﷺ! وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں۔ کہہ دو اپنی ضرورت سے زائد۔‘‘

ان احکام خداوندی کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ کی مخلوق کی خدمت کے لئے زیادہ سے زیادہ خرچ کیجئے۔ یہ کام اپنے مستحق رشتہ داروں سے شروع کیجئے اور پھر اس میں دوسرے ضرورتمندوں کو بھی شامل کر لیجئے۔

یاد رکھیئے! جو کچھ آپ اللہ کے لئے خرچ کریں وہ محض اللہ کی خوشنودی کے لئے ہو۔ اس میں کوئی غرض، بدلہ یا شہرت کا حصول پیش نظر نہ ہو۔

ضرورتمندوں کی امداد چھپا کر کریں تا کہ آپ کے اندر بڑائی یا نیکی کا غرور پیدا نہ ہو اور ان کی عزت نفس مجروح نہ کریں۔ کسی کو کچھ دے کر احسان نہیں جتلائیں اور نہ نمود و نمائش کا اظہار کریں۔ 

مفلس کی خصوصیت

ایک دن آپﷺ نے حاضرین سے مخاطب ہو کر سوال کیا۔ ’’تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟‘‘

حاضرین نے جواب دیا۔ ’’یا رسول اللہﷺ! ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس مال و اسباب نہ ہو۔‘‘

رسولﷺ نے فرمایا! میری امت میں قیامت کے دن مفلس وہ ہو گا جو نماز، روزہ اور زکوٰۃ سب کچھ لے کر آئے گا لیکن اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہو گی، دوسرے پر بدکاری کی تہمت لگائی ہو گی، کسی کا مال لیا ہو گا، خون کیا ہو گا۔ اس کی تمام نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی ختم ہو جائیں گی تو پھر لوگوں کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔ جن کے ساتھ اس نے ظلم کیا ہو گا اور وہ جہنم کے سپرد کر دیا جائے گا۔‘‘

حقوق العباد کی ادائیگی رشتہ داروں سے شروع ہوتی ہے جن میں والدین سب سے پہلے مستحق ہیں۔ ماں باپ کی خدمت اور ان کی اطاعت اولین فریضہ ہے۔ اہل و عیال کے لئے حلال رزق کا حصول اور بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت بھی حقوق العباد میں سے ہے۔ اس کے بعد دوسرے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا نمبر آتا ہے۔ آخر میں تمام انسان حقوق العباد کے دائرے میں آتے ہیں۔

حقوق العباد میں مالی حق بھی ہے اور اخلاقی حق بھی ہے۔ قرآن نے جا بجا اس کی حدود بیان کی ہیں اور اس کو ایمان کا جز قرار دیا ہے۔

خود غرض اور نفس پرست سرمایہ داروں نے جن مصیبتوں کو انسانوں پر مسلط کیا ہے وہ بلیک مارکیٹنگ اجناس اور دوسری اشیاء کو محض نفع کی خاطر روک کر رکھتے ہیں ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لوگوں کی جان و مال سے کھیلتے ہیں پوری نوع انسانی کو ہلاک کرنے کے درپے ہیں۔ اپنی حکمرانی قائم کرنے کے لئے مہلک ہتھیار ایجاد کرتے ہیں اور فساد پھیلانے کیلئے انہیں فروخت کرتے ہیں۔ وہ بلاشبہ اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔

آپﷺ نے فرمایا!’’جو لوگ غذائی اجناس اور دوسری اشیاء کو ذخیرہ کر لیتے ہیں تا کہ بازار میں مصنوعی طور پر قلت ہو جائے اور قیمت بڑھ جائے تو وہ بڑے گنہگار ہیں۔‘‘

آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ اس آدمی پر رحم کرتا ہے جو خریدنے، بیچنے اور تقاضا کرنے میں نرمی اختیار کرتا ہے۔‘‘

زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں، چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور مخلوق خدا کو پریشان کرتے ہیں وہ سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ وہ ظاہری طور پر کتنے ہی خوش نظر آئیں لیکن ان کا دل روتا رہتا ہے۔ ڈر اور خوف سائے کی طرح ان کے تعاقب میں رہتا ہے۔ وہ کسی کو اپنا ہمدرد نہیں سمجھتے اور کوئی ان کا ہمدرد نہیں ہوتا۔ 

جب چیزیں سستی ہوتی ہیں تو وہ غم میں گھلتے رہتے ہیں اور جب چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں تو وہ خوش ہوتے ہیں۔

ناپ تول میں کمی

حضرت شعیبؑ کی قوم میں بہت بڑی بری خصلت ناپ تول میں کمی اور ناقص چیزوں کی فروخت تھی۔ ناقص چیزوں میں ملاوٹ ایک بڑی برائی ہے۔

آج مسلمان قوم میں وہ تمام برائیاں اظہر من الشمس ہیں جو حضرت شعیبؑ کی قوم میں تھیں۔ جھوٹ، افترابازی، اقرباپروری ایک دوسرے کو نیچا دکھانا، ملاوٹ (گھی میں ناقص تیل کی ملاوٹ، چینی میں کھانڈ کی ملاوٹ، دودھ میں پانی اور اراروٹ کی ملاوٹ، مرچوں میں سرخ مٹی کی ملاوٹ، پسے ہوئے دھنیے میں لکڑی کے برادے کی ملاوٹ، زندگی بچانے والی دواؤں میں ملاوٹ غرض کے اب بازار میں ہر چیز کے ایک نمبر دو نمبر فروخت ہو رہے ہیں) کم تولنا، ڈنڈی مارنا، نفع کے لالچ میں قانونی حدود کو توڑنا، سود لینا، سود دینا، دوسروں کو خود سے کم تر سمجھنا، خود کو برتر سمجھنا، دوسرے کے عیب تلاش کرنا، حسد کرنا، غصہ کرنا، صرف اپنے حقوق کا تعین کرنا اور دوسروں کے حقوق کا خیال نہ کرنا عام ہو گیا ہے۔ ایک ایک بات جس کے نتیجہ میں قومیں تباہ کر دی گئی ہیں مسلمانوں میں سب نظر آتی ہیں۔ پوری قوم کی عزت و آبرو پامال ہو گئی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے لیکن ہر ہر قدم پر مسلمان ان کے محتاج ہیں۔ اگر بینک سے دس لاکھ قرضہ لیا جائے تو تیس سال میں ۵۲ لاکھ روپے سود دینا پڑتا ہے۔

ابدال حق قلندر بابا اولیاءؒ نے ایک بار بہت آزردہ ہو کر فرمایا:

’’آج رات دربار نبویﷺ میں بڑا عجیب واقعہ پیش آیا۔ فرشتوں نے اجتماعی طور پر عرض کیا کہ ہماری ڈیوٹی تبدیل کر دی جائے ہم قوم کو نیکی انسپائر(Inspire) کرتے ہیں لیکن کوئی قبول نہیں کرتا سوائے ان لوگوں کے جن کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہے۔ اور یہ بندے نہایت قلیل ہیں۔ زبانی دعوے سب کرتے ہیں ہر شخص دوسرے کو نیکی کی نصیحت کرتا ہے مگر خود عمل نہیں کرتا۔

ہم جب خود کو باعث تخلیق کائنات حضرت محمد رسول اللہﷺ کی امت کہتے ہیں تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہم حضورﷺ کی تعلیمات پر کتنا عمل کر رہے ہیں۔ حضورﷺ میں عفو و درگذر تھا۔ ہم میں سے کتنے مسلمان معاف کرتے ہیں۔ حضورﷺ امین تھے مسلمانوں میں کتنے لوگ امین ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے غصہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ ہر گھر میں فساد برپا ہے ہر شخص غصہ کرتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے خود غرضی سے منع فرمایا ہے۔ ہمارے معاشرے کی قدریں یہ ہیں کہ ہر شخص دوسرے سے توقع قائم کرنا اپنا حق سمجھتا ہے لیکن دوسرے کا کوئی حق اس کے ذہن میں نہیں آتا۔ میں اگر کسی سے محبت کرتا ہوں تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ جس سے محبت کرتا ہوں وہ میری ہر بات پوری کرے اور میری حکم عدولی نہ کرے۔

مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ ایک لڑکا کسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ باالفاظ دیگر وہ اس لڑکی سے محبت کرتا ہے وہ علی الاعلان کہتا ہے۔ اگر میری اس لڑکی سے شادی نہیں ہوئی جس سے میں عشق کرتا ہوں تو میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ اس سے پوچھا جائے بھائی! وہ لڑکی تو تجھ سے محبت نہیں کرتی وہ اس کا جواب دیتا ہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے میں تو اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ ہم خود غرضی اور خود فریبی کے جال میں گرفتار ہیں۔ یہی وہ اعمال ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے ناپسندیدہ اعمال قرار دیا ہے اور جن کی وجہ سے قوموں پر عذاب نازل ہوا ہے۔ اقتدار کے خواہش مند، خود غرض اور مغرور افراد دراصل اللہ کے اقتدار کو جھٹلاتے ہیں۔ اللہ کے احکامات کی پیروی نہ کرنا اور پیغمبرانہ طرز فکر کی تکذیب کرنا اللہ کے قانون سے بغاوت ہے۔ پہلی قومیں بغاوت اور سرکشی کی وجہ سے ہلاک کر دی گئیں۔

٭٭٭٭٭


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔