Topics
دقیانوس کو جب معلوم ہوا کہ یہ لوگ اس غار کے اندر چھپے ہوئے ہیں تو اس نے حکم دیا کہ اس غار کو ایک دیوار بنا کر بند کر دیا جائے تا کہ وہ اس میں مر جائیں اور غار ان کی قبر بن جائے یہی ان کی سزا ہے۔یہ کام جس شخص کے سپرد کیا گیا وہ نیک آدمی تھا اس نے ان اصحاب کے نام ،تعداد پوررا واقعہ رنگ کی تختی پر کندہ کراکےتانبے کے صندوق میں دیوار کی بنیاد کے اندر محفوظ کر دیا۔یہ بھی روایت ہے کہ اسی طرح کی ایک تختی شاہی خزانے میں بھی محفوظ کرادی گئی۔
کچھ عرصہ بعد دقیانوس مر گیا۔ زمانے گزرے۔ سلطنتیں تبدیل ہو گئیں۔ یہاں تک کہ ایک نیک بادشاہ فرمانروا ہوا اس کا نام بیدروس تھا، اس نے اڑسٹھ(۶۸) سال حکومت کی۔ ملک میں جب حیات و ممات کے فلسفے پر فرقے بن گئے تو بعض لوگ مرنے کے بعد جی اٹھنے کے منکر ہو گئے۔ بادشاہ بہت فکر مند تھا وہ چاہتا تھا کہ لوگوں کے دلوں میں موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کا یقین پیدا ہو جائے اس نے گریہ و زاری سے بارگاہ الٰہی میں دعا کی:
’’یا رب! کوئی ایسی نشانی ظاہر فرما جس سے تیری مخلوق کو مرنے کے بعد جی اٹھنے اور قیامت آنے کا یقین ہو جائے۔‘‘
اسی زمانےمیں ایک شخص نے اپنی بکریوں کے لئے آرام کی جگہ حاصل کرنے کے لئے اسی غار کو منتخب کیا اور دیوار گرادی۔ دیوار گرانے والوں پر کچھ ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ وہ بھاگ نکلے۔
’’اگر تم کہیں جھانک کر انہیں دیکھتے تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور تم پر ان کے نظارے سے دہشت بیٹھ جاتی۔‘‘
(سورہ کہف۔۱۸)
اصحاب کہف بحکم الٰہی فرحاں و شاداں اٹھے، چہرے شگفتہ، طبیعتیں خوش، زندگی کی تروتازگی موجود۔ ایک نے دوسرے کو سلام کیا۔ نماز کے لئے کھڑے ہو گئے، فارغ ہو کر آپس میں پوچھنے لگے، ایک بولا کتنی دیر سوتے رہے؟ کسی نے کہا ہم سوتے رہے ایک دن یا اس سے کم۔
’’اور وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے اور کچھ لوگ کہتے ہیں نو(۹) سو سال غار میں رہے۔‘‘
(سورہ کہف۔ ۲۵)
اس کے بعد انہوں نے اپنے ایک ساتھی یمیلخاکو چاندی کے چند سکے دے کر کھانا لانے کے لئے شہر بھیجا اور کہا ذرا احتیاط سے کام لینا کہیں لوگ تمہیں پہچان نہ جائیں، انہیں ڈر تھا کہ اگر لوگوں کو پتہ چل گیا تو وہ ہمیں پکڑ لیں گے۔
’’اب اپنے میں سے کسی کو چاندی کا یہ سکہ دے کر شہر بھیجیں اور وہ دیکھے کہ سب سے اچھا کھانا کہاں ملتا ہے۔ وہاں سے وہ کچھ کھانے کے لئے لائے اور چاہئے کہ ذرا ہوشیاری سے کام کرے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ کسی کو ہمارے یہاں ہونے سے خبردار کر بیٹھے۔ اگر کہیں ان لوگوں کا ہاتھ ہم پر پڑ گیا تو بس سنگسار ہی کر ڈالیں گے یا پھر زبردستی ہمیں اپنی ملت میں واپس لے جائیں گے اور ایسا ہوا تو ہم کبھی فلاح نہ پا سکیں گے۔‘‘
(سورۃ کہف: ۱۹۔۲۰)
یمیلخاشہر پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دنیا ہی بدلی ہوئی ہے، سب لوگ مسیحی ہو گئے ہیں اور ڈائنا کو پوجنے والا کوئی نہیں ہے۔
کوتوال شہر
ایک دکان پر پہنچ کر اس نے روٹیاں خریدیں اور دکاندار کو چاندی کا ایک سکہ دیا جس پر (دقیانوس) کی تصویر تھی، دکان دار یہ سکہ دیکھ کر حیران ہو گیا۔ پوچھا، تمہیں یہ سکہ کہاں سے ملا؟ یمیلخا نے کہا، یہ میرا اپنا مال ہے دونوں میں تکرار ہونے لگی لوگ جمع ہو گئے معاملہ کوتوال شہر تک جا پہنچا۔ کوتوال نے یمیلخا سے کہا، مجھے وہ دفینہ بتاؤ جہاں سے تم یہ سکہ لائے؟ یہ صدیوں پرانا سکہ ہے۔ تم تو ابھی جوان لڑکے ہو، ہمارے بڑے، بوڑھوں نے بھی کبھی یہ سکہ نہیں دیکھا، یہ ضرور کوئی راز ہے۔ جین یمیلخا نے جب یہ سنا کہ قیصر ڈیسیس کو مرے ہوئے زمانہ گزر چکا ہے تو حیرت زدہ ہو گیا اور کچھ دیر تک وہ دم بخود رہا، پھر اسے ہوش آیا۔ اس نے کہا کل ہی تو میں اور میرے ساتھی اس شہر سے بھاگ کر گئے تھے اور ایک غار میں ہم نے پناہ لی تھی تا کہ ڈیسیس کے ظلم سے بچے رہیں، میرے ساتھی قریب کے پہاڑ میں ایک غار کے اندر پناہ گزیں ہیں، چلو میں تمہاری ان سے ملاقات کرا دوں۔ حاکم شہر کے عمائدین اور ایک خلقت ان کے ہمراہ غار پر پہنچی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔