Topics
ان کے آباؤ اجداد جن خداؤں کو پوجتے تھے حضرت صالح نے انہیں علی الاعلان جھوٹا قرار دے دیا تو ظلمتوں میں گھرے ہوئے لوگوں میں ہنگامہ برپا ہو گیا، ہر طرف بحث و مباحثہ شروع ہو گیا، کچھ نے حق بات کو بالکل رد کر دیا، کسی نے تمسخر اڑایا، کسی نے حضرت صالح علیہ السلام کو برا بھلا کہا، کچھ لوگ جن کے دلوں میں ایمان کی رمق باقی تھی غور و فکر میں ڈوب گئے۔ قبیلے کے کرتا دھرتا لوگ حضرت صالح علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا:
’’تمہای ہوش مندی، فراست، متانت و سنجیدگی، ذکاوت و پروقار شخصیت سے ہمیں بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں کہ تمہارے تدبر سے ہمیں فائدہ ہوگا۔دوسرے قبیلوں کے مقابلے میں ہماری شان و شوکت اور بڑھے گی لیکن ان توقعات کے برخلاف تم نے ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا، تم ہمیں ایسے راستے پر چلنے کو کہتے ہو جس پر ہم یقین نہیں رکھتے۔‘‘
حضرت صالح علیہ السلام نے ان لوگوں سے کہا:
’’کیا میں اللہ کی عطا کردہ بصیرت و ہدایت کے خلاف محض تم لوگوں کو خوش کرنے کے لئے گمراہی کا طریقہ اختیار کر لوں؟ اللہ کی ناراضگی سے مجھے کون بچائے گا؟ اس نے اپنی رحمت سے مجھ کو نواز دیا ہے اس کے بعد اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو تم میرے کس کام آ سکتے ہو؟‘‘
قوم ثمود اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہی اور لوگوں کا بغض اور عناد حضرت صالح کے خلاف بڑھتا گیا اور راست بازی کی راہ چھوڑ دینے کیلئے آپ کو تنگ کیا جانے لگا، آپ نے سب کچھ برداشت کیا اور گمراہ کن عقائد کو باطل ثابت کرنے کے لئے نصیحت اور تبلیغ کا راستہ ترک نہیں کیا، اہل باطل آپ کی دعوت حق کے جواب میں کہتے تھے:
’’اے صالح! اگر ہم پسندیدہ طریقہ پر نہیں ہیں اور ہمارے معبود باطل ہیں تو آج ہم کو یہ دھن دولت، سرسبز و شاداب باغ، سامان آسائش کی فراوانی اور بلند عالیشان محلات کیوں حاصل ہیں؟ تو خود اپنی اور اپنے پیروکاروں کی بدحالی پر غور کر اور ہمیں بتا کہ مقبول لوگ ہم ہیں یا تم یا تمہارے خستہ حال پیروکار۔‘‘
قوم کے گستاخانہ طرز کلام کے جواب میں آپ نے فرمایا:
’’تم اپنی خوشحالی اور عیش سامانی پر تکبر نہ کرو۔ وسائل کی یہ فراوانی تمہارے زور بازو کا نتیجہ نہیں ہے، نہ ہی ان وسائل کی فراوانی کو ہمیشہ برقرار رکھنا تمہارے اختیار میں ہے، یہ نعمتیں جو تمہیں حاصل ہیں اللہ کی عطا کردہ ہیں جو تمہارا اور کائنات کی ہر شئے کا خالق و مالک ہے اگر تم اس کے شکر گزار بندے بنو گے تو وہ تمہیں مزید انعامات سے نوازتا رہے گا اور اگر تم نے کفران نعمت کیا اور ان نعمتوں کے حصول پر مغرور ہو گئے تو یہی وسائل تمہارے لئے عذاب بن جائیں گے۔‘‘
آل ثمود اس حقیقت کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہ تھے کہ حضرت صالح اللہ کے فرستادہ پیغمبر ہیں۔ مال و دولت کے ذخائر پر تسلط کی بنا پر لوگ سمجھتے تھے کہ اللہ کے احکامات کو لوگوں تک پہنچانے کے اہل ہم لوگ ہیں وہ لوگ جو حضرت صالح پر ایمان لے آئے تھے اہل باطل کی تحقیر و تضحیک کا نشانہ بنتے تھے۔ یہ لوگ ایمان کی دولت سے سرفراز اہل بصیرت کو مخاطب کر کے پوچھتے:
’’کیا تمہیں یقین ہے کہ صالح اپنے پروردگار کا بھیجا ہوا رسول ہے؟‘‘
جواب میں حضرت صالح علیہ السلام کے پیروکار کہتے کہ:
’’بے شک! ہم اس کے لائے ہوئے پیغام پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘
یہ بات منکرین کے لئے ناقابل برداشت تھی کہ ان کے علاوہ کسی اور کے لئے لوگوں کے دلوں میں اس قدر ادب و احترام ہو کہ وہ اس کی کہی ہوئی بات کو بلا چوں چرا تسلیم کر لیں۔
اپنے اقتدار کے لئے وہ انہیں خطرہ سمجھتے تھے، حضرت صالح علیہ السلام کی عزت اور شرف کو ان کے پیروکاروں کی نظروں میں کمتر ثابت کرنے کے لئے وہ کہتے تھے:
’’ہم ہر اس بات کو رد کرتے ہیں اور ہر اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں جو صالح تمہارے سامنے بیان کرتا ہے۔‘‘
سرداران قوم نے عوام الناس کو بہکانے کے لئے نفسیاتی حربہ استعمال کیا، انہوں نے پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ:
’’یہ شخص خدا کے نام پر محض جھوٹ گھڑ رہا ہے، یہ تمہارے ہی جیسا ایک بشر ہے جو کچھ تم کھاتے ہو وہی کھاتا ہے اور وہی پیتا ہے جو تم پیتے ہو اور اگر تم نے اپنے ہی جیسے ایک بشر کی بات مان لی تو تم گھاٹے میں رہو گے، یہ شخص تمہیں بتاتا ہے کہ جب تم مر کر مٹی ہو جاؤ گے تو دوبارہ زندہ کر دیئے جاؤ گے حالانکہ یہ بات سراسر عقل کے خلاف ہے، مرنے کے بعد دوبارہ ہرگز ہمیں زندہ نہیں کیا جائے گا اس شخص کی خیالی باتوں سے مرعوب ہو کر اس کے جال میں نہ پھنس جانا۔‘‘
باطل پرستوں کا پروپیگنڈہ سطحی سوچ رکھنے والے اور ظاہر بین مادیت پرستوں کے لئے قابل ستائش تھا لیکن وہ لوگ جن کے دل ایمان کے نور سے منور تھے متاثر نہیں ہوئے۔
ارباب اختیار نے جب دیکھا کہ معاشی طور پر کمزور لوگوں میں حضرت صالح علیہ السلام کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے تو انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلانے کے لئے ان سے مطالبہ کیا اگر تم واقعی اپنے پروردگار کے فرستادہ بندے ہو تو کوئی معجزہ دکھاؤ، حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا:
’’ایسا نہ ہو کہ کوئی واضح نشانی دیکھ لینے کے بعد بھی تم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہو اور کفر ترک نہ کرو۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔